AIM-سیکھو اور سکھاؤ-- جیو اور جینے دو
Welcome to my page! I want to share my stuff (All in One Place )with you and hope you will find something useful here. I hope you enjoy my collection and come back again and again. I will do my best to make the content ever more interesting.Like Info Video,e Book, News Relating,Knowledge and Entertainment.
I am trying to share all Under One Umbrella.
Thank you for your time!

مسلمان بھائی کی مدد کرنا

 مسلمان بھائی کی مدد کرنا
اسلام میں عبادت کا مفہوم کافی وسیع ہے ۔ صرف نماز‘ روزہ ‘ حج و زکاۃ یا چند رسمی امور کی ادا ئیگی یا شکل و صورت کی 
درستگی ہی عبادت نہیں بلکہ اسلام میں ہرنیکی اورہرخیرکاکام ‘ جواللہ تعالیٰ کوراضی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سےکی جائے عبادت ہے۔خلوصِ نیت سےاللہ کی رضاکیلئےدوسروں کے کام آنا یعنی اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی نیکی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے اپنی وتر کی دعاوٴں میں اس جملے کو ادا فرمایا :
...أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ... (ابوداود حدیث نمبر ۱۵۰۸)
’’ میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان ایک دوسرے کے بھایٴ ہیں۔ ‘‘
... إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ...’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘ ( سورة الحجرات آیت ۱۰ )
یہی انسانی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کیلئے وقف کر دے اور ہر مخلوق کی مدد و خدمت کرے۔ رسول اللہ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے اپنی کیفیت کو اپنی اہلیہ محترمہ ام الموٴ منین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو انہوں نے اپنے شوہر کی پوری زندگی چھہ جملوں میں بیان کر دی۔ یہ چھہ جملے تمام حقوق العباد سے متعلق تھے اور دوسرے کے کام آنے اور دوسروں کے خدمت و مدد سے مربوط تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی کسی ایسی عبادت کا ذکر نہیں فرمایا جو سجدہ و رکوع کی کثرت یا ذکر و عبادت سے متعلق تھی بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت والی عبادت کا ذکر کیا کہ
(1) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور
(2) ہر سچی بات کی تصدیق کرتے ہیں اور
(3) دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور
(4) دوسروں کو کما کر دیتے ہیں ( بے سہارا کا سہارا بنتے ہیں) اور
(5) مہمان نوازی کرتے ہیں اور
(6) ہر حق والے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ( صحیح بخاری و مسلم ).
یہ چھہ (6) صفات ہیں جو ہمیں بتا رہی ہیں کہ یہی رسول اللہ ﷺ کی وہ اسوہ ہے جسے اپنا نے کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 21میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّ۔هِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّ۔هَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّ۔هَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
’’ یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘‘
دوسروں کے کام آنا ‘ دوسروں کا بوجھ اٹھانا ‘ بے سہارا کا سہارا بننا وغیرہ اہم ترین نیکیاں ہیں ۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہئے کہ اِن نیکیوں کو اپنی اپنی زندگی کا مقصد بنالیں کیونکہ وہ مسلمان عظیم ہے جس کی زبان‘ ہاتھ پیر اور دوسری توانائی و صلاحیت دوسرے مسلمان کے کام آئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والا ہو‘ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ
تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشی کا داخل کرو‘
یا اسکی تکلیف و پریشانی کو دور کرو ‘
یا اس کے قرض کی ادئیگی کا انتظام کرو ‘
یا اس کی بھوک کو ختم کرو ‘
اور میں اپنے کسی مسلمان بھایٴ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ( چند قدم ) اس کے ساتھ چلنے کو مسجد کے دو مہینے کے اعتکاف سے بہتر سمجھتا ہوں ‘
º اور جس کسی نے اپنا غضب روک لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا
º اور جس کسی نے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے دل کو غنا سے بھر دے گا
º جو کویٴ اپنے مسلمان بھایٴ کی کویٴ ضرورت پوری کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے قدموں کو پھسلنے ( اور پھسل کر جہنم میں گرنے ) سے بچائے گا اور ثابت قدم رکھے گا ‘
اور برا اخلاق ساری نیکیوں کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ ( صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر ۱۷۶)
خوش نصیب ہیں وہ مسلمان
· جو دوسرے مسلمانوں اور انسانوں کے کام آتے ہیں۔
· ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔
· محتاج و نادار کی خدمت کرتے ہیں۔
· جو بے آسرا اور تنہا ہیں ‘ اُن کا ساتھی بن کر اُن کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· یتیموں اور بیواوٴں کا خیال کرکے اپنے لئے دنیا میں جنت کی ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔
· معذور اور بوڑھے افراد کا سہارا بنتے ہیں۔
اور
· اس طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسِ سلوک کرکے اللہ کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،بلاوجہ چیزوں کی قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے ناراضگی نہ رکھو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ لہذا کوئی بھی اپنے بھائی پر ظلم نہ کرے۔ اس کو رسوا نہ کرے، اس کو حقیر نہ سمجھے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرکے 3 بار فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ کسی شخص کی برائی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون بہانا، اس کی عزت پامال کرنا اور اس کا مال لوٹنا حرام ہے۔
(مسلم ، کتاب البر والصلۃ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔ “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اسے (بے یار و مددگار چھوڑ کر دشمن کے) سپرد کرتا ہے، جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری فرماتا ہے، جو کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور فرما دے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔“ (بخاری و مسلم شریف)
اس حدیث مبارکہ سے جو اہم پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک خاندان کے افراد کی طرح رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں، کہ جس طرح ایک شخص اپنے باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ پر کوئی ظلم کرنا، مدد کے وقت اسے بے یارو مددگار چھوڑنا پسند نہیں کرتا، اسے کوئی حاجت پیش آئے تو پوری کرنے کی، کسی مشکل اور تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے دور کرنے کی اور اگر اس سے کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جائے تواس کی پردہ پوشی کی کوشش کرتا ہے، بالکل یہی معاملہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ ہونا چاہئیے، اس سے اللہ تعالٰی خوش ہوتا ہے اور اس کا بہترین صلہ اسے دنیا و آخرت میں عطا فرماتا ہے، گویا یہ ایک اجتماعی کفالت کا ایک بہترین نظام ہے، جس پر اگر مسلمان عمل کریں تو آخرت کی بھلائی کے ساتھ ان کی دنیا بھی جنت نظیر بن سکتی ہے، اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے اس طرح مخاطب ہے :۔
“(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔“ (الحجرات۔ 10)
یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ اگر کوئی دشمن ان میں سے کسی سے برسر پیکار ہو تو وہ ایک دوسرے کے دست و بازو، ہمدرد و غمگسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں، اور مل کر باطل قوتوں کا مقابلہ کریں۔
ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا وہ ظالم ہو یا مظلوم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے-
كتاب المظالم والغصب - صحيح البخاري
حديث -2444
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہر انسان اور خاص کر ہر مسلمان کی مدد اور خدمت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں خیر کی چابیاں بنا ئے۔ آمین

Your Feedback

Welcome

مسلمان بھائی کی مدد کرنا

 مسلمان بھائی کی مدد کرنا
اسلام میں عبادت کا مفہوم کافی وسیع ہے ۔ صرف نماز‘ روزہ ‘ حج و زکاۃ یا چند رسمی امور کی ادا ئیگی یا شکل و صورت کی 
درستگی ہی عبادت نہیں بلکہ اسلام میں ہرنیکی اورہرخیرکاکام ‘ جواللہ تعالیٰ کوراضی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سےکی جائے عبادت ہے۔خلوصِ نیت سےاللہ کی رضاکیلئےدوسروں کے کام آنا یعنی اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی نیکی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے اپنی وتر کی دعاوٴں میں اس جملے کو ادا فرمایا :
...أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ... (ابوداود حدیث نمبر ۱۵۰۸)
’’ میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان ایک دوسرے کے بھایٴ ہیں۔ ‘‘
... إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ...’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘ ( سورة الحجرات آیت ۱۰ )
یہی انسانی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کیلئے وقف کر دے اور ہر مخلوق کی مدد و خدمت کرے۔ رسول اللہ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے اپنی کیفیت کو اپنی اہلیہ محترمہ ام الموٴ منین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو انہوں نے اپنے شوہر کی پوری زندگی چھہ جملوں میں بیان کر دی۔ یہ چھہ جملے تمام حقوق العباد سے متعلق تھے اور دوسرے کے کام آنے اور دوسروں کے خدمت و مدد سے مربوط تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی کسی ایسی عبادت کا ذکر نہیں فرمایا جو سجدہ و رکوع کی کثرت یا ذکر و عبادت سے متعلق تھی بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت والی عبادت کا ذکر کیا کہ
(1) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور
(2) ہر سچی بات کی تصدیق کرتے ہیں اور
(3) دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور
(4) دوسروں کو کما کر دیتے ہیں ( بے سہارا کا سہارا بنتے ہیں) اور
(5) مہمان نوازی کرتے ہیں اور
(6) ہر حق والے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ( صحیح بخاری و مسلم ).
یہ چھہ (6) صفات ہیں جو ہمیں بتا رہی ہیں کہ یہی رسول اللہ ﷺ کی وہ اسوہ ہے جسے اپنا نے کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 21میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّ۔هِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّ۔هَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّ۔هَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
’’ یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘‘
دوسروں کے کام آنا ‘ دوسروں کا بوجھ اٹھانا ‘ بے سہارا کا سہارا بننا وغیرہ اہم ترین نیکیاں ہیں ۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہئے کہ اِن نیکیوں کو اپنی اپنی زندگی کا مقصد بنالیں کیونکہ وہ مسلمان عظیم ہے جس کی زبان‘ ہاتھ پیر اور دوسری توانائی و صلاحیت دوسرے مسلمان کے کام آئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والا ہو‘ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ
تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشی کا داخل کرو‘
یا اسکی تکلیف و پریشانی کو دور کرو ‘
یا اس کے قرض کی ادئیگی کا انتظام کرو ‘
یا اس کی بھوک کو ختم کرو ‘
اور میں اپنے کسی مسلمان بھایٴ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ( چند قدم ) اس کے ساتھ چلنے کو مسجد کے دو مہینے کے اعتکاف سے بہتر سمجھتا ہوں ‘
º اور جس کسی نے اپنا غضب روک لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا
º اور جس کسی نے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے دل کو غنا سے بھر دے گا
º جو کویٴ اپنے مسلمان بھایٴ کی کویٴ ضرورت پوری کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے قدموں کو پھسلنے ( اور پھسل کر جہنم میں گرنے ) سے بچائے گا اور ثابت قدم رکھے گا ‘
اور برا اخلاق ساری نیکیوں کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ ( صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر ۱۷۶)
خوش نصیب ہیں وہ مسلمان
· جو دوسرے مسلمانوں اور انسانوں کے کام آتے ہیں۔
· ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔
· محتاج و نادار کی خدمت کرتے ہیں۔
· جو بے آسرا اور تنہا ہیں ‘ اُن کا ساتھی بن کر اُن کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· یتیموں اور بیواوٴں کا خیال کرکے اپنے لئے دنیا میں جنت کی ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔
· معذور اور بوڑھے افراد کا سہارا بنتے ہیں۔
اور
· اس طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسِ سلوک کرکے اللہ کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،بلاوجہ چیزوں کی قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے ناراضگی نہ رکھو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ لہذا کوئی بھی اپنے بھائی پر ظلم نہ کرے۔ اس کو رسوا نہ کرے، اس کو حقیر نہ سمجھے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرکے 3 بار فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ کسی شخص کی برائی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون بہانا، اس کی عزت پامال کرنا اور اس کا مال لوٹنا حرام ہے۔
(مسلم ، کتاب البر والصلۃ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔ “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اسے (بے یار و مددگار چھوڑ کر دشمن کے) سپرد کرتا ہے، جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری فرماتا ہے، جو کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور فرما دے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔“ (بخاری و مسلم شریف)
اس حدیث مبارکہ سے جو اہم پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک خاندان کے افراد کی طرح رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں، کہ جس طرح ایک شخص اپنے باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ پر کوئی ظلم کرنا، مدد کے وقت اسے بے یارو مددگار چھوڑنا پسند نہیں کرتا، اسے کوئی حاجت پیش آئے تو پوری کرنے کی، کسی مشکل اور تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے دور کرنے کی اور اگر اس سے کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جائے تواس کی پردہ پوشی کی کوشش کرتا ہے، بالکل یہی معاملہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ ہونا چاہئیے، اس سے اللہ تعالٰی خوش ہوتا ہے اور اس کا بہترین صلہ اسے دنیا و آخرت میں عطا فرماتا ہے، گویا یہ ایک اجتماعی کفالت کا ایک بہترین نظام ہے، جس پر اگر مسلمان عمل کریں تو آخرت کی بھلائی کے ساتھ ان کی دنیا بھی جنت نظیر بن سکتی ہے، اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے اس طرح مخاطب ہے :۔
“(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔“ (الحجرات۔ 10)
یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ اگر کوئی دشمن ان میں سے کسی سے برسر پیکار ہو تو وہ ایک دوسرے کے دست و بازو، ہمدرد و غمگسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں، اور مل کر باطل قوتوں کا مقابلہ کریں۔
ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا وہ ظالم ہو یا مظلوم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے-
كتاب المظالم والغصب - صحيح البخاري
حديث -2444
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہر انسان اور خاص کر ہر مسلمان کی مدد اور خدمت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں خیر کی چابیاں بنا ئے۔ آمین

Surah Ar Rehman

Qurani-soorton-ka-nazm-e-jalinewEdition- تفسیر معارف القرآن

Maa