AIM-سیکھو اور سکھاؤ-- جیو اور جینے دو
Welcome to my page! I want to share my stuff (All in One Place )with you and hope you will find something useful here. I hope you enjoy my collection and come back again and again. I will do my best to make the content ever more interesting.Like Info Video,e Book, News Relating,Knowledge and Entertainment.
I am trying to share all Under One Umbrella.
Thank you for your time!

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں

ڈاکٹر عبدالقدیر خان .... کچھ یادیں‘ کچھ باتیں .... (۱)

24 مئی 20120 

محترم قارئین ، پاکستان کے شہرہ آفاق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے آجکل بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور موبائل فون ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ، ایس ایم ایس، کے ذریعے بہت سی صحیح اور غلط باتیں اُن سے منسوب کرکے بھیجی جارہی ہیںجن میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خان کیونکہ مشرف حکومت کے زمانے میں بے معنی قید و بند کی سختیوں کا شکار رہے اور تکالیف کے اِس زمانے میں نوائے وقت گروپ نے بے لوث ہو کر اُنکی آزادی کی شمع کو روشن رکھا جس کا بالآخر عدالت عالیہ نے نوٹس لیا چنانچہ اب ڈاکٹر خان قدرے آزادی سے مختلف فورمز پر اپنا مافی الضمیرکھل کر بیان کر رہے ہیں ۔ راقم کو چند ماہ قبل ڈاکٹر خان سے اہم موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا تو بہت سے حقائق سے پردہ اُٹھا جو اب راقم کی کتاب کا حصہ بھی ہے ۔ قارئین کی دلچسپی کےلئے اِس گفتگو کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
راناعبدالباقی :محترم ڈاکٹر صاحب آپ قیام پاکستان کے تاریخی عوامل کو بخوبی سمجھتے ہیں ، ہندوستان کے طول و ارض میں انتہا پسند ہندوں کی جانب سے مسلم کش پالیسیوں کے باعث ہی فکرِ جناح ؒو اقبالؒ نے ہندوستان میں مسلمانوں کےلئے ایک علیحدہ وطن کی تحریک کو مہمیز دی ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر انتہا پسند ہندوں نے سردار پٹیل کی سرپرستی میں بہار ، بنگال ، مشرقی پنجاب ، کشمیر اور بالخصوص دہلی میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں حصہ لیکر جناح و اقبال کے خدشات کو درست ثابت کیا ؟
ڈاکٹرعبدالقدیر خان:یہ بالکل صحیح ہے تقسیم سے پہلے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہندوں نے مسلمانوں کو لوٹنا اور قتل کرناشروع کر دیا تھا۔ ممبئی میں بھی یہ فسادات روز مرہ کا کھیل بن گئے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ بہت ذی فہم اور دوربین نگاہ رکھنے والے قائدین تھے انہیں یقین تھا کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوا اور مسلمان اپنا علیحدہ ملک حاصل نہ کرسکے تو مسلمانوں کا مستقبل بہت تاریک ہوگا۔ ہندو بے حد متعصب اور عیار تھے اگر تقسیم نہ ہوتی تو ہندوں کی اکثریت آہستہ آہستہ مسلمانوں کو ختم کر دیتی اور اُنکا حشر اچھوتوں جیسا ہوجاتا۔ ویسے تو گاندھی اور نہرو دونوں ہی نہایت عیار تھے لیکن وہ یہ نفرت انگیز کام سردار پٹیل سے کراتے تھے۔ تقسیم کے فوراً بعد ہندوں نے دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا اور ہزاروں بے گناہ مسلمان شہید ہوئے مگر دارلحکومت دہلی میں موجود ہوتے ہوئے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے مسلمانوں کا قتل عام روکنے کےلئے کچھ نہیں کیا۔ و ہ چاہتے تھے کہ مسلمان یاتو قتل کر دیئے جائیں یا پاکستان ہجرت کر جائیں تا کہ انکی جائیدادوں پرہندو قبضہ کرسکیں۔
رانا عبدالباقی : جناب عالی آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دسمبر 1971ءمیں سقوط ڈھاکہ اور مئی 1974ءمیں بھارت کے جوہری دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی کی بابت بھارتی ناپاک عزائم پر پاکستانی قوم خدشات کا شکار تھی ، آپ اُس وقت ہالینڈ میں تھے کیا آپکی ذات گرامی بھی اضطراب و کرب کی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوئی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:تقسیم کے فوراً ہی بعد میرے دو بڑے بھائی پاکستان آ گئے تھے اور 1952ءمیں ہمارا باقی خاندان بھی کراچی پہنچ گیا۔ میں نے کراچی یونیورسٹی سے ہی بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور بعد میں مزید اعلیٰ تعلیم کےلئے برلن(جرمنی) کی اعلیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے چلا گیا۔ وہاں دو سال تعلیم حاصل کرکے ڈ یلفٹ (ہالینڈ) کی اعلیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی چلا گیا۔ جرمنی سے ہالینڈ منتقل ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ میر ی منگیتر کے والدین ہیگ میں رہتے تھے وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ میں نے وہاں اعلیٰ نمبروں سے ایم ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور ایک سال تک بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر جی ڈبلیو برگرس G.W.Burgers کے پاس ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ پھرمجھے بلجیم کی قدیم اور مشہوریونیورسٹی لیوون (Leuven) میں فیلو شپ ملی توہم وہاں چلے گئے ہماری دونوں بچیاں دینا اور عائشہ وہیں پیدا ہوئیں ۔ نومبر 1971ءمیںمیں نے ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی تھیسس پیش کر دی تھی اور اِسکے انٹرویو کی تاریخ کا انتظار کر رہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی جنگ شدت پکڑ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں وہاں TVپر دکھایا جاتا تھا کہ پاکستانی افواج نے وہاں بہت مظالم ڈھائے ہیں لیکن جب 16دسمبر 1971ءمیں پاکستانی افواج سے شرمناک طور پرہتھیار ڈلوائے گئے اور پاکستانی قیدی نہایت ذلت سے ہندوستان لے جائے گئے تو مجھے بے حد دکھ ہوا۔ میں کئی دن تک کھانا نہیں کھا سکتا تھا نوالہ حلق میں اٹک جاتا تھا۔ رات کو تنہائی اور اندھیرے میں آنسو بہتے رہتے تھے مگر میں مجبور تھا کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔ 1972ءکے شروع میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کرہم ایمسٹرڈیم چلے گئے وہاں مجھے ایک بہت بڑی کمپنی (VMF) میں اچھی ملازمت مل گئی۔ یہ کمپنی المیلوس زیرتعمیر یورینیم کی افزودگی کی فیکٹری کےلئے مشیر کا کام کرتی تھی اس طرح مجھے اس کام پر فل ٹائم لگا دیا گیا۔ یہاں میں نے انکی لا تعداد مشکلات حل کیں اور یورینیم افزودگی کے حوالے سے بہت ہی قیمتی تجربہ حاصل کیا۔ یہ پلانٹ سنٹری فیوج ٹیکنالوجی پر مبنی تھا۔ میں یہاں کام کر رہا تھا۔ کمپنی بہت اچھی تنخواہ دے رہی تھی۔ ہمیں گھر دیا گیا تھا گاڑی دی تھی ہم ایمسٹرڈم کے نواح میں نہایت خوبصورت گاں میں رہتے تھے اوریہاں ہماری کمپنی کے بیس پچیس گھر تھے۔ میں یہاں کام کررہا تھا اور کئی اور ملکوں سے اچھی پیشکشیں آرہی تھیں کیونکہ میں نے یہاں کئی اعلیٰ مقالے لکھے تھے جومشہور بین الاقوامی رسالوں میں شائع ہوئے۔
ترکی کی مشہور درسگاہ مڈل ایسٹ ٹیکنکل یونیورسٹی سے مجھے پروفیسر کی پوزیشن کی پیشکش کی تو میں نے بیگم سے مشورہ کر کے یہ پیشکش قبول کرلی اور ہمارا ارادہ گرمیوں کی تعطیل گزارنے کے بعد وہاں جانے کا تھا کہ ہندوستان نے دنیا کو دھوکہ دےکر 18مئی 1974ءمیں پوکھران میں کامیاب ایٹمی دھماکہ کر ڈالا۔اس کام میں بھارت کو بالواسطہ طور پر امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور فرانس کی خاموش مدد حاصل ہوئی ۔ مجھے اس دھماکہ کے بعد یہ احساس ہوگیا تھا کہ پاکستان دس سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکے گااور ہندوستان نہ صرف کشمیر پر بلکہ لاہور اور اسکے آس پاس کے علاقوں پر بھی قبضہ کرنے سے گریز نہیں کریگا۔ میں اِس صورتحال پر بہت پریشان تھا ۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ہی آپ اور آپکی اہلیہ نے باہمی مشاورت سے پاکستان آنے اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش پر پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کےلئے ایٹمی صلاحیت کے حصول کےلئے اپنے بیش بہا کام کا آغاز کیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں ! مجھے پاکستان کے بارے میں بہت فکر تھی۔ ہندوستانی دھماکہ کے بعد میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا تھا اور انہوں نے مجھے فوراً پاکستان آنے کی دعوت دی ۔میں حسب معمول کرسمس کے قریب بیگم اور بچیوں کو لےکر کراچی آگیا۔ میں آکر بھٹوصاحب سے ملا میں نے بتلایا کہ دنیا کی حساس ترین ٹیکنالوجی برائے افزودگی یورینیم پر کام کررہا ہوں۔ اس ٹیکنالوجی پر جرمنی، ہالینڈاور انگلینڈ نے 20سال ریسرچ کر کے ہالینڈ میں” المیلو“ کے مقام پرایک پائلیٹ پلانٹ لگایا جو کامیابی سے چل رہا ہے اور اِس ری ایکٹر میں ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والا چار فیصد افز ودہ یورینیم تیار کر رہا ہے لیکن میرے اندازے کےمطابق اس ٹیکنیک سے ایٹم بم بنانے کےلئے 90فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم تیار ہوسکتا ہے۔ (جاری)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان .... کچھ یادیں‘ کچھ باتیں .... (۲)
کالم نگار  |  رانا عبدالباقی
31 مئی 20120

ڈاکٹر قدیر خان: بھٹو صاحب نے منیر احمد خان کو بلایا جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین تھے لیکن افسوس کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو ڈاکٹر بتایا ہوا تھا جبکہ اُنہوں نے لاہورسے صرف بی ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری الیکٹریکل انجینئرنگ میں لی تھی اوربعد میں امر یکہ جا کر اُنہوں نے نارتھ کیرولائنا اسٹیٹ پولی ٹیکنک سے 9ماہ میں ایم ایس سی الیکٹرک انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی اور پھر آغا شاہی صاحب کی مہربانی سے نئی نئی بنیIAEAمیں چھوٹی ملازمت پر بھرتی ہوگئے تھے۔ بھٹوصاحب نے 1971ءکی شرمناک شکست کے بعد ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی کو ہٹا کر منیر کے بھائی شیخ خورشید احمد کے کہنے پر منیر احمد خان کو PAECکا چیئرمین بنا دیا تھا جو مسلسل بھٹو صاحب کو دھوکہ دیتے رہے کہ وہ تین سال میں ایٹم بم بنا دینگے۔بہر حال میں نے بھٹو صاحب کے حکم پر زبانی طور پر اُن کو اس ایٹمی ٹیکنیک کی موشگافیوں سے آگاہ کر دیا اورمشورہ دیا کہ و ہ فوراً اس موضوع پر تمام لٹریچر جمع کر کے 10-8اچھے سائنسدانوں کی ٹیم بنا کر یہ کام شروع کروا دےں اور اس کےلئے ورکشاپس قائم کرنے اور مشینری وآلات لگانے کے بارے میں بتلا دیا۔اس طرح ہم واپس چلے گئے۔ ایک سال بعد یعنی 1975ءمیں کرسمس کے موقع پر ہم پھر آئے اور بھٹو صاحب کی درخواست پرمیں کراچی سے اسلام آباد آیا تویہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ ائیر پورٹ کے قریب نہایت خستہ حال گیرا جوں میں بشر الدین محمود 12-10لڑکوں کے ساتھ اس پروجیکٹ پرکام کیا محض مذاق کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ایم ایس سی مانچسٹر سے کی تھی اور وہ بھی بجلی کی موٹروں کے کنٹرول پر۔میں نے بھٹو صاحب کو آغاشاہی صاحب اور جنرل امتیاز کی موجودگی میں صاف طور پر بتلا دیا کہ یہ لوگ متعلقہ کام کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ محض گیراجوں میں ایسے حساس کام کوآگے نہیں بڑھایا جا سکتا ۔ بھٹو صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور انہوں نے منیر احمد خان کو سخت سُست کہتے ہوئے آغا شاہی صاحب اور جنرل امتیاز سے کہا کہ وہ کوئی اہل آدمی تلاش کر یں تا کہ وہ اٹامک انرجی کا چارج سنبھال لے۔

دوسرے روز بھٹو صاحب نے مجھے بلایا اور کچھ رسمی باتیں کرکے یکدم درخواست کر دی کہ ملک کا مستقبل بہت خطرے میں ہے لہٰذا آپ واپس نہ جائیں اور یہ کام سنبھال لیں۔ میں نے کہا کہ میں اپنی بیگم سے مشاورت کرکے جواب دونگا کیونکہ وہ غیر ملکی ہیں۔ واپس سلور گرل ہوٹل راولپنڈی آکر میں نے بیگم کو یہ بات بتلائی تو وہ حیران پریشان ہوگئیں اورکہا کہ تمہارے پاس اعلیٰ ملازمت ہے اب تم پروفیسر بننے والے ہو، میرے والدین ضعیف ہیں اور دونوں بچیاں وہاں اچھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ہم یہ نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم پروگرام کےمطابق 15 جنوری1976ءکوواپس چلے جائینگے لیکن مجھے پریشان دیکھ کر وہ پھر بولیں کیا تم واقعی اپنے ملک کی اہم خدمات انجام دے سکتے ہو میں نے کہا کہ میرے علاوہ کوئی اور پاکستانی قیامت تک یہ کام نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تمہاری خواہش ہے تو پھرہم رک جاتے ہیں میں واپس جا کروالدین کو سمجھا دونگی اور بچیوں کے اسکول جا کر بتلا دونگی اور کچھ ضرورت کا سامان لے کر واپس آجانگی۔ میں نے واپس جا کر بھٹو صاحب کو بتلایا تووہ بے حد خوش ہوئے۔منیر نے ہمیں سلور گرل ہوٹل میں ٹھہرایا تھا۔ پہلے دن ہی سے اُنہوں نے مجھے تنگ کرنا شروع کیا، چھ ماہ تک مجھے تنخواہ نہ دی اور دی تو صرف تین ہزارروپیہ ماہانہ جبکہ بھٹو صاحب نے مجھے کمیشن کا ایڈوائزر لگا یا تھا مگر منیر احمد خان اور اسکے چیلے میرے پاکستان میں رک کرکام کرنے کے سخت خلاف تھے، نہ ہی ہمیں کار اور ڈرائیور دیا اور نہ ہی مناسب گھر، ایف ایٹ میں جو کہ اس وقت زیر تعمیر پسماندہ علاقہ تھا میں ایک گھر1500روپے ماہوار کرایہ پر لے دیا جبکہ وہ خود ایف سکس میں بڑے بنگلے میں رہتے تھے یہاں ٹیلیفون ، پانی وغیرہ سب قسم کی ہی کی تکلیف تھی ۔میرااندازہ یہی تھا منیر احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ نیوکلیر ٹیکنالوجی شاید پراٹھا بنانے کا طریقہ ہے کہ وہ چند گھنٹوں میں سیکھ لیں گے اور پھر میری چھٹی کرا دےنگے۔ چھ ماہ میں نے اسی حالت میں کام کیا اور جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو بھٹو صاحب کولکھ دیا کہ اس طرح یہ کام قیامت تک مکمل نہ ہوگا اور میں واپس ہالینڈ جا رہا ہوں۔ پس قیامت ٹوٹ پڑی اور دو دن میں مجھے اس پروگرام کا سربراہ بنا کر کہوٹہ میں ایک خود مختار ادارہ انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کے نام سے قائم ہوگیا اورہم نے مڑ کر نہیں دیکھا اور اتنی تیزی سے کام کیا کہ دنیا ہماری ایٹمی صلاحیت پر حیران رہ گئی۔
رانا عبدالباقی : جناب محترم کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر منیر احمد خان اوردیگر افراد جنہیں آپکی آمد سے قبل پاکستان کےلئے ایٹمی صلاحیت کے حصول کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، وہ اپنے کام کی ابتدا کےلئے محض فرانس کےساتھ ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے پر عمل درآمد کے منتظر تھے جسے امریکی دبا پر انتہائی سخت شرائط کے تابع کیا گیا اور پھر بھٹو صاحب کی حکومت کے غیر آئینی خاتمے پر جنرل ضیاءالحق دور میں امریکی دبا پر یہ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: منیراحمد خان اور اسکی ٹیم قطعی نا اہل تھی منیر نے بھٹو صاحب کو دھوکہ میں رکھا تھا کہ وہ کنوپ ری ایکٹر سے استعمال شدہ فیول”چوری“ سے نکال لے گا اور فرانس سے لئے گئے ری پروسیسنگ پلانٹ میں پلوٹونیم پیدا کر کے بم بنا لے گا آپ اس شخص کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ کنوپ اور فرانس کا پلانٹ IAEAکی نگرانی میں تھے اور وہاں کیمرے نصب تھے۔ فرانس کے پلانٹ میں24 گھنٹے فرانسیسی انجینئر موجود ہوتے تھے۔ منیراحمد خان کا خیال تھا کہ وہ تین چار سال ایسے ہی نکال جائیگا، نئی حکومت آئےگی تو بات ختم ہو جائےگی۔ فرانس سے لئے جانےوالے پلانٹ کا ایٹم بم بنانے میں رتی بھر بھی حصہ نہیں ہوسکتا تھا اور خدا کا شکرہے کہ وہ سفید ہاتھی ہمارے سر پر نہ بٹھایا گیا۔ اس معاملہ کی تفصیل مولانا کوثر نیازی کی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ تمام مغربی ملکوں کو جب 1979ءکے اواخر میں کہوٹہ کے بارے میں علم ہوا تووہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ جاہل اور نا اہل لوگ سائیکل کی چین یا سلائی کی سوئی نہیں بناسکتے ہیں اتنی مشکل اور اہم ٹیکنالوجی کوکیسے استعمال کر پائینگے۔ انہوں نے ہمارے کام کو شروع میں ایک مذاق ہی سمجھا تھا۔ باہر والوں کی بات چھوڑئیے ، سوائے بھٹو صاحب اور غلام اسحق خان کے سب ہی اس کام کو ناممکن سمجھ رہے تھے۔
رانا عبدالباقی : جناب آپ کی قیادت میںKRL پروجیکٹ کی تیاری اور اِسی اثنا میں فرانس سے ایٹمی ری پروسیسینگ پلانٹ کے معاہدے کی منسوخی کے بعد کیا امریکی واقعی یہی سمجھتے تھے کہ ڈاکٹر اے کیو خان کا ایٹمی ہدف اب ناممکنات میں ہے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں! مغربی ممالک کو یقین تھا بلکہ ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے کے خاتمے کے بعد مغربی ممالک اس بات پر مکمل یقین کر رہے تھے کہ پاکستان اب کبھی ایٹمی قوت نہیں بن سکے گا۔
رانا عبدالباقی :کیا سینٹری فیوج کے ذریعے ایٹم کی افزودگی کے حوالے سے اُس وقت امریکیوں نے واقعی آپ کی صلاحیت کو محض ایک مذاق ہی سمجھا تھا لیکن کیا یہی سینٹری فیوج اب ایران ، شمالی کوریا اور لیبیا کے حوالے سے دنیا بھر میں ز یر بحث نہیں ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں وہ یہی سمجھتے تھے لیکن سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر اب دوسرے ملک بھی کام کر رہے ہیں۔ لیبیا کے صدر قذافی نے بھی امریکیوں پر بھروسہ کیا اور ملکی مفادات سے غداری کر کے اپنا تمام جوہری سامان امریکیوں کے حوالے کر دیا اور اللہ نے اسکے بدلہ میں قذافی کو ایسے المناک عتاب سے دوچار کر دیا جس کو اسکی سات پشتیں بھگتیں گی۔ بہرحال اب تو چین اورروس بھی سنٹری فیوج ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بڑے بڑے پلانٹ چلا رہے ہیں۔ (جاری)
رانا عبدالباقی :جناب عالی ، سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کے حوالے سے جوہری افزودگی کے عمل میں انقلاب بپا کرنے پر دنیا بھر میں آپکی ذات گرامی کو شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ، کیا آپ عوام کی آگہی کےلئے اِس انقلابی ٹیکنالوجی پر کچھ روشنی ڈالنا پسند فرمائینگے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں یہی ہوا تھا ۔ جب تک میں یورپ میں بیرونی طاقتوں کےلئے کام کر رہا تھا تو میں فرشتہ تھا مگر جونہی ان کو علم ہوا کہ میں پاکستان میں سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہوں تو میں چور اور جاسوس بن گیا ۔ میری غیر حاضری میں اور میری لا علمی میں ہالینڈ میں مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ میں نے غیر قانونی طریقہ سے کچھ حساس معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ مقدمہ میں نے جیت لیا تھا اور ہمارے محترم ایس ایم ظفر صاحب نے دو ڈچ وکلاءکی مدد سے اس الزام کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور مجھے با عزت بری کیا گیا تھا ۔ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی موجودہ دورکی بہترین ٹیکنالوجی ہے جو یورینیم کو افزودہ کرنے میں استعمال ہوتی ہے چند ملکوں نے اس میں مہارت حاصل کی ہے جس میں پاکستان شامل ہے۔2ارب ڈالرسے ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ نے اس میں مہارت حاصل کی تھی۔ اس کو مختصراً بیان کرنا مشکل ہے بس یہ سمجھ لیجئے جس طرح دودھ میں سے مکھن نکالا جاتا ہے اسی طرح یورینیم میں سے جس میں صرف0.7فیصد مفیدU-235ہوتا ہے اور باقی U-238ہوتا ہے۔ سنٹری فیوج مشین میں ایک ٹیوب ایک باہر کے خول یعنی Casingمیں ہوتی ہے دونوں کے درمیان خلا پیدا کیا جاتا ہے اندروالی ٹیوب تقریباً65ہزار چکر فی منٹ پر گھومتی ہے اس میں یورینیم ہیک فلور ائڈ گیس داخل کی جاتی ہے اور چونکہ یورینیم کے دونوں آئسو ٹوپس کے اوزان میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ U-238 یعنی بھاری ہوتاہے اور U-235 ہلکا ہوتا ہے اس طرح بھاری آئسو ٹوپس ٹیوب کی دیوار کے پاس چلا جاتا ہے اور ہلکا U-235ٹیوب کے درمیانی حصہ میں آجاتا ہے اس طرح بہت ہی پیچیدہ طریقہ سے یہ گیس اگلے ٹیوب میں جاتی ہے اور یہ سلسلہ تقریباً15مرحلوں میں تین فیصد افزودہ U-235تیار کرتا ہے اور اسی طرح اور زیادہ افزودہ کرنا ہو تو پھر دوسرے 15مرحلے والے سسٹم میں یہ گیس ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ U-235کی افزودگی 90فیصد ہوجاتی ہے اور U-238کی افزودگی98.3فیصد سے گھٹ کر 0.25 فیصد رہ جاتی ہے۔ یہ کام بے حد مشکل ہے مگر اس میں بجلی کا خرچ کم ہوتا ہے اور افزودگی کے دوسرے طریقوں کے مقابلہ میں بہت ہی اچھا ہے۔ U-238 ایٹم بم میںU-235کے چاروں طرف لگا کر استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرے بہت وزنی ہونے اور ٹکرا کر پھٹنے اور آگ پیدا کرنے کی وجہ ٹینک شکن راکٹ میں استعمال ہوتا ہے ۔
رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی صلاحیت غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی لیکن 1974ءکے بھارتی ایٹمی دھماکوں پر نہ تو دنیا نے اِسے ہندو بم سے تشبیہ دی اور نہ ہی مغرب کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی کنونشن کی خلاف ورزی کے حوالے سے کسی قرار واقعی ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کےلئے آپ کی قیادت میںکام شروع کیا تو اِسے نہ صرف اسلامی بم قرار دیا گیا بلکہ امریکہ اور اسرائیل نے اِسے نادیدہ خطرے سے تعبیر کیا ، مغرب کے قول و فعل میں اِس دوعملی کی کیا وجوہات ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:یہ بالکل صحیح ہے کہ بھارت نے امریکہ اور کینیڈا کو دھوکہ دے کر ان کے دیئے ہوئے ری ایکٹر اور ہیوی واٹر کو استعمال کر کے پلوٹونیم بنا کر ایٹم بم میں استعمال کیا تھا۔ ہمارے خلاف مغربی اور ہندو قومیں اس لئے صف آراءہوئی ہیں کیونکہ ماضی میں ان کو مسلمانوں کی تہذیب و تمدن نے روند ڈالا تھا۔صلیبی جنگیں اسی کی کڑی تھیں اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اسی گھٹیا نفسیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ہم سے ان کی یہ دشمنی قیامت تک جاری رہے گی کیونکہ وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ ہمارے مذہب اورتہذیب و تمدن نے ان کی تہذیبی جڑوں کو ہلا دیا تھااور وہ لوگ یہ بات آج تک نہیں بھولے ہیں۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ بتانا چاہیں گے کہ 80کی دہائی میں بھارتی صحافی کلدیپ نائیر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کے پس پردہ اثرات کے تحت کام کرتے ہیں کی مشاہد حسین سید کے ہمراہ آپ سے ملاقات کی کیا اہمیت تھی اور کیا آپ اِس ملاقات کے ذریعے ہندوستان پر واضح کرنا چاہتے کہ Hand off from Pakistan\\\" \\\" کیونکہ اُس وقت پاکستان ایک خاموش ایٹمی طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جس کا کھلم کھلا اظہار چاغی ایٹمی دھماکوں کی شکل میں ممکن ہوا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں وہ چالاک ہندو صحافی مجھ سے الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے تھے، میں نے صاف صاف کہ دیا کہ یہ 1965ءیا 1971ءکی بات نہیں اب اگرہندوستان نے جارحیت کی تو ہم بھی اُسکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔اس نے اس ذومعنی بات کا مطلب سمجھ لیا اور وہ تمام الفاظ میرے منہ میں ڈال دیئے جو میں نے نہیں کہے تھے تاکہ مغربی ممالک پریشان ہو جائیں اور ہماری امداد بند کر دیں۔ اس نے یہ انٹرویو ایک ہندو کال گرل پامیلابورڈیس سے نشر کرایا جو اس وقت سندھی آبزرور کے ایڈیٹر سے خصوصی تعلق رکھتی تھی۔ پھر بعد میں جنرل ضیاءالحق نے ہندوستانی اخبار کو انٹرویو میں ایسی ہی بات کہہ دی جس نے راجیو گاندھی کو بھی ہلا دیا تھا۔ اس وقت سے ہندوستان کی ہمارے خلاف کسی جارحیت کی جرا

¾ت نہیںہوئی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ آپ نے محترم مجید نظامی کے ہمراہ رائے ونڈ میںمیاں نواز شریف کے والد سے ملاقات کر کے جنرل پرویز مشرف کی بطور چیف آف سٹاف تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ، اور کیا یہ بھی درست ہے کہ چاغی دھماکوں کے تاریخی موقع پر آپ نے جنرل پرویز مشرف کو شراب پی کر آنے پر ملامت کی تھی اور کیا اِس کا بدلہ پرویز مشرف نے وزارت دینے کی آڑ میں خان ریسرچ لیبارٹریز سے آپکی ریٹائرمنٹ اور نائین الیون کے بعد آپ کی نظربندی کی شکل میں دیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں! یہ بالکل صحیح ہے کہ مجید نظامی صاحب اور میں رائے ونڈ میں میاں محمد شریف(مرحوم) سے ملے تھے اور میں نے صاف صاف بات کی تھی اور میاں شریف صاحب نے نواز شریف سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا۔ وہ بولے کہ چوہدری نثار نے مشورہ دیا تھا۔ جبکہ پینے پلانے والی بات چاغی کے دھماکوں سے متعلقہ نہیں ہے۔ اِس سے قبل مشرف منگلہ میں تعینات تھاجب تو وہ چاغی میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے ، و ہ پینے پلانے والی بات 6اپریل 1998ءکی ہے جب ہم ٹِلّہ رینج سے غوری میزائل داغ رہے تھے۔ یہ شخص (مشرف) نہایت کم عقل، جھوٹا اور سخت کینہ پرور ہے جو عوام کے سامنے اور پوری دنیا کے سامنے جھوٹ بولتا رہا ہے اور تاثر یہ دیتا رہا ہے کہ بڑا بہادر کمانڈوہے مگردر حقیقت بے حد بزدل ہے اس نے کسی جنگ میں ایک گولی نہیں چلائی۔
رانا عبدالباقی :صدر پرویز مشرف نے 2006ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتا ب In The Line Of Fire\\\" \\\" میں تذکرہ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اُنہوں نے آپ کو KRL سے علیحدہ کر نے کا تہیہ کر لیا تھا جبکہ 2001ءمیں آپ کو ترقی دیکر نہ صرف وزیر مملکت بنا دیا گیا بلکہ27 مارچ 2001ءمیں آپ کے اعزاز میں ایک سرکاری ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے آپ کی تعریف میں جو کچھ کہا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے ، میں اُن کی طویل تقریر سے صرف دوجملوں پیش کرنے کی اجازت چاہونگا جس میں اُنہوں نے آپ کی شان میں فرمایا تھا کہ ”آخر کار اللہ نے قوم کی دعائیں سن لیں ، ہماری صورتحال پر رحم آگیا ، ایک معجزہ رونما ہوا اور پردہ غیب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل نابغہ کا ظہور ہوا اور یہ نابغہ روزگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ، ایسے نابغہ جس نے تن تنہا قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کر دیا، جناب ڈاکٹر صاحب مجھے رسمی طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانے کی اجازت دیجئے کہ قوم کو آپ نے جو کچھ دیا ہے اُس کےلئے یہ قوم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی ہمیشہ آپ کی ممنونِ احسان رہے گی ،آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور ہماری آئندہ نسلوں کے مبداءفیضان ہیں ، کوئی شخص بھی آپ سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتا کیونکہ تاریخ میں آپ کے مقام کا تعین ہوچکا ہے“ ۔ چنانچہ مندرجہ بالا تناظر میں یہ سوال قائم کرنا چاہوں گا کہ کیا نائین الیون کے بعد سے 2006ءتک پرویز مشرف مکمل طور پر CIA کی لائین پکڑ چکے تھے وگرنہ بطور چیف ، قومی ایٹمی ادارے کے سربراہ ہونے کے باوجود پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلقہ تفصیلات کو کلی طور پر بیرونی دنیا کے سامنے expose کرنے کا کیا مقصد تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی آپ خود ہی اس جھوٹے شخص کے تحریری بیانات دیکھ لیجئے27مارچ 2001ءمیں وہ میری شان میں قصیدے پڑھ رہاتھا اور زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا ۔ وہ تقریر میں نے تو اُسے لکھ کر نہیں دی تھی اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ میں نے اس کی تقریر کا دو الفاظ میں بھی جواب نہیں دیا تھا ایسی ہی کئی اور باتیں تھیں جن کی وجہ سے وہ میرا جانی دشمن بن گیا ۔ مشرف نے 2001ءمیں ہی 9/11کے بعد امریکی غلامی کر لی تھی اور امریکن اور برٹش تو میرے خون کے پیاسے تھے ہی مشرف نے امریکی ایجنڈے پر کام شروع کر دیااور وہ کام جو پوری مغربی دنیا ہمارے خلاف نہ کر پائی تھی وہ اس بزدل ڈکٹیٹر نے اُن کے لئے کر دیا۔ اس نے اپنی کتاب میں جو باتیں نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں لکھی ہیں وہ ملک سے غداری کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس پر اس کو پھانسی یا عمر قید کی سزا ملنی چاہئے۔

رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ مشرف اپنی ذاتی کمزوریوں کے سبب بیرونی دبا برداشت نہ کر سکے اور جوہری پھیلا کی تمام ذمہ داری کمال عیاری سے آپ کے سر تھوپنے کےلئے پاکستان کی سلامتی کے نام پر آپ سے سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دلوایا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جب آپ پرویز مشرف کے دبا میں نہیں آئے تو مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کے ذریعے خدا اور رسول کے واسطے دیکر آپ کو پاکستان کی سلامتی کی خاطر سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دینے پر مجبور کیا گیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: مشرف بزدل اور ڈرپوک تھا اور مجھ سے ذاتی دشمنی تھی اس لئے نہ صرف مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیابلکہ ہمارے پروگرام سے متعلق حساس قسم کا سامان پہنچانے والے ذرائع کو بھی اس نے بہت نقصان پہنچایا۔میں کسی قسم کا بیان دینے کو تیار نہیں تھا مگر میرے عزیز اور محترم دوستوں چوہدری شجاعت حسین اور ایس ایم ظفر صاحب نے ملک کی سلامتی کی خاطر دوستانہ مشورہ دیا کہ میں بیان پڑھ دوں اس بیان میں لا تعداد لغویات تھیں مگر ملک کی خاطر میں نے یہ بیان پڑھ دیا ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نہ ہی NPT اور نہ ہی NSGپر دستخط کئے تھے اور ہم کسی کو کسی قسم کی معلومات یا کسی کے خلاف کارروائی کرنے کے پابند نہ تھے۔ اس جاہل نے اپنے آپ کو شاہ (امریکہ) کا وفادار ثابت کرنے کےلئے مجھ سے بیان دلوا کر پاکستان کو مجرم بنا دیا۔ میں تو ایک شخص واحد تھا قربانی کے جذبے سے ہی پاکستان آیا تھا، جلدیا بدیر خالق حقیقی سے جا ملتا اور پاکستان پر آنچ تک نہ آتی۔ مشرف کو جان لینا چاہئیے تھا کہ ہم 20سال تک بم بنانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔وہ الزام لگاتے رہتے اور ہم یہاں انکار کرتے رہتے مگر یہ بات ایک کم تر تعلیم رکھنے والے شخص کے دماغ میں کس طرح سماسکتی تھی۔ میں نے بہر حال اس لکھے ہوئے کاغذ میں ایک ترمیم اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے ضرور کرائی تھی کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ نیک نیتی سے کیا ہے۔ ایک ا ور بات یہ جو جوہری ٹیکنالوجی ہے وہ کسی کے باپ کی ملکیت نہیں تھی۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال کی محنت و مشقت سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی تھی اور میں نے یہ ٹیکنالوجی کسی کو بیچی نہیں تھی بلکہ اپنے وطن کو بغیر کوئی معاوضہ لئے دی تھی ، اِس سے کسی کو سروکار نہیں ہونا چاہئیے کہ میں یہ ٹیکنالوجی کسی کو دوں یا نہ دوں ۔ میں نے اپنے خاندان کی زندگی ، اپنی زندگی اور مستقبل کو دا پر لگا کر یہ چیز پاکستان کو بلا معاوضہ دی تھی جس کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں دو ارب ڈالر تھی اور پاکستان کو یہ چیز اتنی قیمت میں بھی کوئی نہ دیتا میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ، اپنے وطن کی مٹی سے وفا کی ہے۔مشرف نے اُسی روز پریس کانفرنس کی تھی کہ ڈاکٹر خان ایک آزاد شہری کی حیثیت سے با عزت زندگی گزار سکتے ہیں ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہوگی صرف ملک سے باہر جانے کے لئے حکومت سے این او سی لینا ہوگا اس نے مجھ سے خود بھی وعدہ کیا تھاکہ آپ کو بہت جلد ہی پوری طرح بحال کر دینگے لیکن اِس کے برعکس ہوا، اور دوسرے دن ہی مجھے نظر بند کر دیا گیا۔ میری بچی کاکمپیوٹر اٹھا کر لے گئے۔ ٹیلیفون لائن کاٹ دی اور ہمارے موبائل فون چھین لئے گئے ، میری غیر ملکی اہلیہ یہی سوچتی تھی کہ کیا بے لوث خدمت کا یہی صلہ ہے۔ چند دن بعد جنرل قدوائی اور ان کی بیگم ہم سے ملنے آئے اور وعدہ کیا کہ دو تین مہینے میں تمام پابندیاں ختم کر دی جائینگی۔ اس بات کو اب سات برس سے زیادہ ہوگئے اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ابھی تک گھر کے باہر اور آس پاس بے شمار لوگ موجود ہوتے ہیں اور آنے جانے والوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، سیکیورٹی ضرور ہونی چاہئیے لیکن مجھے قیدی بنا کر نہیں رکھنا چاہئیے تھا۔ یہی نہیں بلکہ ماضی میں ایک روز مجھے اور میری اہلیہ کو جبراً بنی گالہ لے جایا گیا اور آٹھ سفید پوشوں نے ہمارے پورے گھرکو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ بستر، الماری میں کپڑے، چند آلات، بنک کی فائلیں ، تمام بندوقیں سب لے گئے اور بہن اور بھائی تک پر آکر ملنے کےلئے صرف دو دن دیئے جاتے تھے۔ میری بیٹی کو جو لندن میں رہ رہی تھی ایک سال تک واپس نہیں آنے دیا گیا۔ اخبارات میں میری پوری طرح کردار کشی کی گئی اور ہر قسم کے جاہلانہ الزامات لگائے گئے۔ہمارے گھر میں ہمارے بیڈ روم، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، بیٹی کے روم اور نواسی کے روم میں ہر جگہ سننے والے آلات نصب کر دیئے گئے ۔ بیڈ رومز میں بستر کے ساتھ یہ آلات لگائے گئے تھے یہ جاہل شخص (مشرف) اِس زعم میں تھا کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہوگا۔ میں نے چند دن میں ہی تمام آلات کو تلاش کر لیا تھا اور اگرہمیں کچھ ذاتی بات کرنی ہوتی تھی باہر لان پر جاکر کر لیتے تھے۔ یہ تمام بدمعاشیاں اس وقت ختم ہوئیں جب لاہور ہائی کورٹ کے جج اعجاز احمد چوہدری صاحب نے مجھے ایک آزاد شہری کی حیثیت سے رہنے اور لوگوں سے ملنے اور ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت دی ، میں اُن کا شکر گزار ہوں ۔
رانا عبدالباقی : تو گویا، سرکاری چینل پر پڑھا جانے والا بیان نہ تو آپ کا لکھا ہوا تھا اور نہ ہی آپکے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا تھا بلکہ یہ بیان سرکاری ٹیلی ویژن پر پڑھنے کیلئے مبینہ طور پر آپ کو ملک کے بہترین مفاد میں دیا گیا تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں ایسا ہی ہے۔ یہ بیانSPDنے تیار کیا تھا اور شاہ (امریکہ) سے زیادہ وفاداری ثابت کرنے کےلئے اس میں مجھے ملوث کرنے کے لئے اس قدر جھوٹ لکھا گیاکہ پوری دنیا کو فوراً ہی علم ہوگیا کہ یہ ایک مفروضہ بیان ہے جسے میرے ہاتھ میں پڑھنے کےلئے تھما دیا گیا تھا۔ میں نے صرف اور صرف ملک کے بہترین مفاد میں یہ بیان پڑھ دیا ورنہ ٹیکنالوجی نہ تو میں نے اُن کو بیچی تھی اور نہ ہی اِس کے بدلے کوئی ایک روپیہ معاوضہ لیا تھا لیکن یہ ٹیکنالوجی بہرحال سینکڑوں سائنسدانوں کی شب وروز محنت کا نتیجہ تھی اور میں خود بھی اِن میں شامل تھا اور اِن ملکوں نے یہ ٹیکنالوجی 2ارب ڈالر خرچ کر کے حاصل کی تھی۔
رانا عبدالباقی : جناب عالی، مشرف کی کتاب میں جوہری پھیلا کے حوالے سے چیپٹر 27میں دی گئی متضاد معلومات پڑھ کر عام قاری کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مشرف حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں ۔ 2006ءمیں لکھی کتاب میں 1999ءسے ہی آپ کے کردار پر شبہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن مشرف شاید لکھتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ مارچ 2001ءتک تو وہ آپ کی تعریفوں کے پُل ہی باندھتے رہے اور یہ سلسلہ 2003ءتک جاری رہا جب صدر بش کے کہنے پر اُن کی ملاقات ایٹمی پھیلا کے موضوع پر امریکی سی آئی اے چیف سے ہوئی ۔اپنی کتاب میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سی آئی اے چیف نے اُنہیں سینٹری فیوج کے نقشے دکھاتے ہوئے آپ پر کسی الزام کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے جو کچھ کہا وہ حرف بحرف درست ہے آپ مشرف کی تحریروں اور بیانات میں تضاد دیکھ لیجئے، کہا جاتا ہے جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے لیکن میں کہونگا کہ جھوٹے کا دماغ نہیں ہوتا وہ خود بھول جاتا ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا۔ اس نے خود ہی لکھا ہے کہ نہ ہی سی آئی اے کے سربراہ نے میرا نام لیا تھا اور نہ ہی کسی ڈرائنگ پر میرا یا کے آر ایل کا نام تھا مگر اس کند ذہن کو جو کچھوے کے منہ اور دم میں تمیز نہیں کرسکتا، کہتا ہے کہ میں نے ڈرائنگ کو دیکھ کر فوراً ہی پہچان لیاکہ وہ P-1کی ہےں۔حالانکہ P-1 توہم نے 1982ءمیں بنانا بند کر دی تھیں اور P-IIلگا دی تھیں۔1998ءمیں چیف بننے سے پہلے مشرف کو کہوٹہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایران اور لیبیا کے حوالے صرف اتنا کہونگا کہ چونکہ یورپ کے چند سپلائرز وہی تھے جنہوں نے ہمیں سامان مہیا کیا اور وہ ہی ایران اور لیبیا کو سامان بیچ رہے تھے چنانچہ امریکیوں نے بجائے اُن کے مجھے قربانی کا بکرا بنانا آسان سمجھا کیونکہ یہاں اُن کے احکام کی تابعداری کے لئے اُنہیں ایک ڈکٹیٹر مل گیا تھا۔
رانا عبدالباقی :مشرف جانتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت مغرب کے ایٹمی پُرزوں کے سپلائرز کی مرہون منّت تھی جبکہ قرائین یہی کہتے ہیں کہ مبینہ ایٹمی پھیلا میں ملوث دیگر ممالک بشمول ایران ، شمال کوریا اور لیبیا بھی بظاہر اِنہی مغربی ملکوں کے سپلائرز کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے لیکن اِن میں سے کوئی بھی ملک ابھی تک ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ مشرف کی کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی بھارتی میڈیا میں مشرف کی کتاب کی تمام تر معلومات اہم خبر کے طور پر نشر کر دی گئی تھی ، اِسے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بات سچ ہے کہ شمالی کوریا کے سوا باقی دو ممالک ان ہی مغربی تاجروں سے تمام سامان خرید رہے تھے۔مشرف نے اپنی کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں اگر کسی اور ملک میںکوئی شخص ایسا لکھتا تو اُسے پھانسی مل گئی ہوتی مگر ہمارے ملک میں غدار پھلتے پھولتے ہیں، بغاوت کرتے ہیں ،حکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔
رانا عبدالباقی : پرویز مشرف صدر مملکت کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد اِس اَمر کے پابند تھے کہ بطور صدر اُن کے نوٹس میں آنے والی معلومات کو وہ براہ راست یا بلواسطہ طور پر سرکاری ذمہ داری نبھانے کے سوا کسی پر آشکار نہیں کریں گے تو کیا صدر مملکت کے طور پر بھاری معاوضے کے حصول پر اِس کتاب میں خفیہ جوہری معلومات کا تذکرہ اُن کے حساس عہدے کے منافی نہیں تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے اس نے کسی سے اجازت طلب نہیں کی نہ صرف تمام راز امریکہ اور دوسرے ممالک کو دے دیئے بلکہ سنٹری فیوج مشین کوبھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے حوالے کر دی۔ اگر امریکن اس سے کہتے ہیں اُن کے سامنے ننگا ناچ کر دکھائے تو وہ ایسا بھی ضرور کرتا، کیونکہ مشرف ہر حال میں اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر کے طور منوانے کےلئے بیتاب تھا۔
رانا عبدالباقی :جناب عالی ایک سابق برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن جو اب امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں نے آر جعفری سمتھ کے مضمون میں شمالی کوریا کے جون بیونگ کے خط کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے لیکن چونکہ اِس دوران آپ نظر بند تھے تو کیا سائمن نے یہ خط آپ کی نظر بندی کے دوران آپ سے حاصل کیا تھا اور کیا نظر بندی کے دوران مشرف حکومت نے ایٹمی پھیلا سے متعلق کسی بیرونی ایجنسی کو آپ سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:نظر بندی کے دوران مجھ سے کسی بیرونی قوت یا ایجنسی نے بات چیت نہیں کی۔ مشرف ڈرتا تھا کہ اگر اس نے کسی کوملنے کی اجازت دی تو میں ہر چیز کھل کے بتلا دونگا ۔جو خط میں نے اپنی بیگم کو دیا تھا اس کی کاپی ازراہ حفاظت بڑی بیٹی کو دیدی تھی جب وہ واپس لندن جا رہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط نکال لیا اور اس نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مشرف نے اپنے کارندوں کے ذریعہ وہ خط امریکہ کو دیا۔ امریکی حکومت ایسی چیزیں مناسب وقت پر سی آئی اے کے ذریعہ اپنے معتبر اخبار نویس یا صحافی کو دے کر افشاں (یعنی لیک) کر دیتے ہیں یہاں بھی یہی ہوا ہے۔
رانا عبدالباقی :اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن سے نہ توآپ کی ملاقات ہوئی اور نہ ہی آپ نے یہ خط اس کے حوالے کیا تھا تو پھر قومی مفادات کے بر خلاف یہ کہانی کس کی تیار کر دہ تھی اور کیا سائمن ہنڈرسن کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ 1980ءسے بذریعہ خط و کتابت آپ کے ساتھ رابطے میں تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی نہیں میری سائمن ہنڈرسن سے 1997ءکے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اِس سے قبل بعض اوقات وہ پاکستان کے بارے میں غیر ممالک میں شائع ہونے والے الزامات کے بارے میں مجھ سے پوچھتے تھے اور میں اس کی تردید کر دیا کرتا تھا۔ وہ ایک اچھے صحافی ہیں اور عموماً پاکستان کے لئے اچھے مضامین لکھتے رہے ہیں جس خط کا حوالہ دیا گیا ہے وہ میں نے اپنی بیگم کو لکھ کر د یا تھاانہوں نے احتیاطاً بڑی بیٹی کو دیدیا تھا کہ وہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیں لیکن جب وہ لندن جارہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط میری بیٹی دینا کے سوٹ کیس سے نکال لیا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب اور پریس کانفرنس میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ خط اسی نے سی آئی اے کو دیا اور وہاں سے انہوں نے اس کو افشاں کر دیا کہ عوام کی نگاہ میں میری دقعت اور عزت کم ہو جائے۔ جو شخص حساس سنٹری فیوج مشینیں امریکیوں کو دے سکتا ہے اس کے مقابلے میں اس خط کی کیا حیثیت تھی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں آپ کے خلاف ہرزہ سرائی پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے 2007ءمیں آپ کی مالی خستہ حالی کے پیش نظر پنشن میں مناسب اضافہ کیا تھا اور کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایٹمی حوالے سے اُن کی کتاب میں کیا جانے والا تذکرہ ماضی میں آپ کی جانب سے جنرل مشرف کو چیف آف سٹاف بنانے پرآپ کی میاں شریف مرحوم سے ملاقات کا شاخسانہ تھا اور محض ایک انتقامی کاروائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں یہ بالکل سچ ہے ۔ اُس نے بے بنیادالزامات لگائے تھے اور اس کے کارندے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کم از کم دس کروڑ ڈالر تو ہونگے لیکن کچھ عرصہ بعد حقائق سامنے آگئے کہ ہم بہت مشکل سے گزارہ کر رہے تھے اور کراچی سے میری بہن اور بڑے بھائی ہر مہینہ اگرچہ کچھ رقم میری اہلیہ کو دے جاتے تھے تو گزارا ہوتا تھا ۔ پھر مشرف نے اسپیشل پنشن مقرر کردی کیونکہ 25 برس تک ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد میری پنشن صرف4467روپے تھی یہ صلہ دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت فراہم کرنے اور اپنی خاندانی زندگی کو اور مغرب میں اعلیٰ پیمانے کی زندگی گزارنے کو تباہ کرنے کی پاداش میں ملا تھا مشرف کو تو مجھ سے خدائی بغض تھا بہت سی باتیں تھیں دوسرے اس کے آگے لیٹ جاتے تھے اور میں منہ پر اسکو اچھا سخت جواب دیدیتا تھا۔ یہ شخص میری گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا اور چیف بننے کے بعد احساس کمتری کا شکار تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا ماضی میں آپ کے خلاف ایٹمی دستاویزات کے غلط استعمال پر یورپ میں کوئی مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور اِس مقدمے میں آپ کو بری کئے جانے کے باوجود آپ کے خلاف مغربی پروپیگنڈے میں کمی کیوں نہیں آئی جبکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی دھماکوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ نہ ہونے کے برابر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں 1983ءمیں ہالینڈمیں میری غیر موجودگی میں جھوٹا الزام لگا کرمقدمہ چلا کر 4سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن میں نے ایس ایم ظفر صاحب اور دوڈچ و کیلوں کی معاونت کے ساتھ اپیل کر دی تھی اور مقدمہ جیت لیا تھا اور خود پبلک پراسیکیوٹر نے لکھ کر دیا کہ انہیں کبھی بھی شک نہ تھا کہ میں نے کوئی جاسوسی کی ہے مگر چھوٹی عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ سنا دیا تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پوکھران بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ایٹمی دھماکے کی شدت جس نے چاغی کی پہاڑیوں کو سلگنے پر مجبور کر دیا ، دنیا بھر میں اب تک ہونے والے ایٹمی تجرباتی دھماکوں سے کہیں زیادہ قوت کی حامل تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: نہیں یہ بات نہیں ہے۔ اس قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت کم و بیش برابر ہی ہوتی ہے پانچ فیصد فرق کے اندر ہی اندر ان کی قوت میں فرق ہوتا ہے۔
رانا عبدالباقی :آپ کی نظر بندی کے دوران آپ کے خلاف لگنے والے ایٹمی پھیلا کے الزامات پر آپ کی صاحبزادی نے مغربی پریس کی غلط فہمیاں دور کرنے کےلئے لندن میں قابل ذکر کردار ادا کیا تھا ، کیا آپ اِس کے بارے میں کہنا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میری بڑی بیٹی ہی نہیں بلکہ میرے تمام بہن بھائیوں نے اور میری اہلیہ نے نہایت صبر و ہمت سے ان تمام تکالیف کا حوصلہ سے مقابلہ کیا اور وہ میرے لئے بہت ہی مفید و کار آمد بات تھی کہ مجھے کبھی پریشانی کا احساس نہیں ہوا۔ مجھے علم تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جو کچھ حکومت کہتی رہی اس پر ہی عمل کیا۔ بڑی بیٹی چونکہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہے اور نہ صرف بہادر ہے بلکہ بہت اچھی لکھنے اور بولنے والی ہے اس نے ہر جگہ میرے خلاف ہونے والی بد معاشی کا منہ توڑ جواب دیا۔
رانا عبدالباقی :آپ نے یورپ کی آزاد فضاں کو چھوڑ کر پاکستان تشریف لا کرملکی سلامتی کےلئے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ، آپ کی اہلیہ اِس دوران انتہائی وفاداری سے آپ کا ساتھ دیتی رہی ، کیا آپ سمجھتے ہیں مغربی سماج میں پرورش پانے کے باوجود اُن کا یہ تاریخی کردار اعلیٰ مشرقی روایات سے بھی بڑھ کر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بالکل ٹھیک ہے میری بیگم نہایت بہادر اور وطن پرست ہیں میرا خیال ہے کہ کوئی پاکستانی بیگم اتنا پریشر برداشت نہیں کر پاتی۔ اُن کی ہمت اور مدد کی وجہ سے ہی میں اتنا بڑا کام کر پایا۔ کسی زمانہ میں ہمارے ملحقہ گیسٹ ہاس میں ہم غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کی میٹنگز کیا کرتے تھے اور غلام اسحق خان صاحب میرے گھر آکر میری بیگم سے ملتے تھے اور اُس کاشکریہ ادا کرتے تھے حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر اُن کی مدد میرے شامل حال نہ ہوتی تو کہوٹہ کاکوئی نام بھی نہیں جانتا ۔آج کے سینہ پھلا کرچلنے والے اور کرپشن کے پیسے سے عیاشی کرنے والے پھر سے ہندوں کی غلامی کر رہے ہوتے۔ میں یہ ضرور عرض کرونگا کہوٹہ پروجیکٹ کی تکمیل میں میری ٹیم کے تمام رفقائے کار اور اُن کی بیگمات نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ہم سب نے اپنی خاندانی زندگی کو وطن کی بے لوث خدمت کے اس کام پرقربان کیاہے۔
رانا عبدالباقی :لوگ یہی کہتے ہیں اور ناچیز نے بھی آپ کےساتھ چند ملاقاتوں میں یہی محسوس کیا ہے کہ آپ پاکستانی ایٹم بم کے خالق ہونے کے باوجود انتہائی درد مند دل رکھنے والے انسان ہیںاور غریب و لا چار لوگوں کی مدد کےلئے دامے درمے سخنے مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، سفید پوش غریبوں کی مدد کےلئے آپ کی غیر معمولی دلچسپی کے پیچھے کونسا جذبہ متحرک ہے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:ہمارا خاندان بھوپال سے ہے اور وہاں بھر پور جنگلی شکار کا علاقہ ہے لیکن بے حد نرم دل تھے میرے والدین( اللہ بخشے۔آمین) بے حد نرم دل تھے ہمیں کبھی غلیل تک استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہی حال میری بیگم، بچیوں اور بہن بھائی کا ہے ہم ہمیشہ پرندوں ، بلیوں اور بندروں وغیرہ کو غذا دیتے ہیں اور اسلام آباد میں بھی ہمارے گھر 20-15بندر روز آتے ہیں اور ہاتھ سے پھل اور ڈبل روٹی لے کر کھاتے ہیں۔جوہری بم کا خالق ہونا کسی ظلم کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ میں وضاحت کرنا چاہوںگا کہ ہم نے ایٹم بم کسی کو مارنے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کی جان بچانے اور ملک کی سلامتی کی حفاظت کےلئے بنایا گیا ہے۔ بھارتی ایٹمی دھماکے ضرور خطے میں جوہری بالا دستی کے حوالے سے کئے گئے تھے لیکن چاغی کے دھماکے خطے میں پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کےلئے کئے گئے ہیں۔ سوائے مشرف کی کارگل کی بدمعاشی کے گذشتہ 40سال میں ہماری ہندوستان سے کوئی جنگ نہیں ہوئی اور انشاءاللہ پاکستان کے جوہری قوت بننے کے بعدکبھی نہیں ہوگی کیونکہ اب ہندوستان بھی مانتا ہے کہ جنگ سے اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لہذا، چاغی دھماکے امن کے ہتھیار کی دلیل ہیں ۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ اپنے والدین کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گے بل خصوص آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ کے کردار کے بارے میں آپ کے پرستار ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی صلاحیت کے حامل شخص کی بنیادی تربیت کس طرح ہوئی؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میرے والدین بہت ہی نرم، مہربان اور نہایت شفقت کرنے والے انسان تھے ۔ والد نے زندگی
میں کبھی ڈانٹا بھی نہیں مگروالدہ نے ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا کہ ہم وقت پر اسکول جائیں، رات کو روزانہ پڑھیں، گھر کا کام کریںاور کسی غلط صحبت میں نہ بیٹھیں۔ یہ اُن کی نگرانی کااثر رہا کہ ہم سب تعلیم حاصل کر سکے۔ والد اور والدہ ہمیشہ محلہ کی بچیوں کو قرآن اور اسکول کی تعلیم مفت دیتے تھے اور قرآن شریف ختم کرنے اور امتحان میں پاس ہونے پر جوڑے اور نقد انعام دیتے تھے۔ میرے والدین بے حدہردلعزیز تھے۔
رانا عبدالباقی :سر اللہ آپ کوبھی بہت خوش رکھے آپ کو صحت کامل سے نوازے ۔ آپ فخر پاکستان ہیں ،آپ محسن پاکستان ہیں ، آپ قوم کے ہیرو ہیں، میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اِس طویل انٹرویو کےلئے وقت دیا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ۔


ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں
کالم نگار  |  رانا عبدالباقی
04 جون 20121


راناعبدالباقی:جناب عالی،سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کے حوالے سے جوہری افزودگی کے عمل میں انقلاب بپا کرنے پر دنیا بھر میں آپ کی ذات گرامی کو شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ، کیا آپ عوام کی آگہی کےلئے اِس انقلابی ٹیکنالوجی پر کچھ روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں یہی ہوا تھا ۔ جب تک میں یورپ میں بیرونی طاقتوں کےلئے کام کر رہا تھا تو میں فرشتہ تھا مگر جونہی ان کو علم ہوا کہ میں پاکستان میں سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہوں تو میں چور اور جاسوس بن گیا ۔ میری غیر حاضری میں اور میری لا علمی میں ہالینڈ میں مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ میں نے غیر قانونی طریقہ سے کچھ حساس معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ مقدمہ میں نے جیت لیا تھا اور ہمارے محترم ایس ایم ظفر صاحب نے دو ڈچ وکلاءکی مدد سے اس الزام کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور مجھے با عزت بری کیا گیا تھا ۔ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی موجودہ دورکی بہترین ٹیکنالوجی ہے جو یورینیم کو افزودہ کرنے میں استعمال ہوتی ہے چند ملکوں نے اس میں مہارت حاصل کی ہے جس میں پاکستان شامل ہے۔2ارب ڈالرسے ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ نے اس میں مہارت حاصل کی تھی۔ اس کو مختصراً بیان کرنا مشکل ہے بس یہ سمجھ لیجئے جس طرح دودھ میں سے مکھن نکالا جاتا ہے اسی طرح یورینیم میں سے جس میں صرف0.7فیصد مفیدU-235ہوتا ہے اور باقی U-238ہوتا ہے۔ سنٹری فیوج مشین میں ایک ٹیوب ایک باہر کے خول یعنیCasingمیں ہوتی ہے دونوں کے درمیان خلا پیدا کیا جاتا ہے اندروالی ٹیوب تقریباً65ہزار چکر فی منٹ پر گھومتی ہے اس میں یورینیم ہیک فلور ائڈ گیس داخل کی جاتی ہے اور چونکہ یورینیم کے دونوں آئسو ٹوپس کے اوزان میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ U-238یعنی بھاری ہوتاہے اور U-235 ہلکا ہوتا ہے اس طرح بھاری آئسو ٹوپس ٹیوب کی دیوار کے پاس چلا جاتا ہے اور ہلکا U-235ٹیوب کے درمیانی حصہ میں آجاتا ہے اس طرح بہت ہی پیچیدہ طریقہ سے یہ گیس اگلے ٹیوب میں جاتی ہے اور یہ سلسلہ تقریباً15مرحلوں میں تین فیصد افزودہ U-235تیار کرتا ہے اور اسی طرح اور زیادہ افزودہ کرنا ہو تو پھر دوسرے 15مرحلے والے سسٹم میں یہ گیس ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ U-235کی افزودگی 90فیصد ہوجاتی ہے اور U-238کی افزودگی98.3فیصد سے گھٹ کر 0.25 فیصد رہ جاتی ہے۔ یہ کام بے حد مشکل ہے مگر اس میں بجلی کا خرچ کم ہوتا ہے اور افزودگی کے دوسرے طریقوں کے مقابلہ میں بہت ہی اچھا ہے۔ U-238 ایٹم بم میںU-235کے چاروں طرف لگا کر استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرے بہت وزنی ہونے اور ٹکرا کر پھٹنے اور آگ پیدا کرنے کی وجہ ٹینک شکن راکٹ میں استعمال ہوتا ہے ۔
رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی صلاحیت غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی لیکن 1974ءکے بھارتی ایٹمی دھماکوں پر نہ تو دنیا نے اِسے ہندو بم سے تشبیہ دی اور نہ ہی مغرب کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی کنونشن کی خلاف ورزی کے حوالے سے کسی قرار واقعی ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کےلئے آپ کی قیادت میںکام شروع کیا تو اِسے نہ صرف اسلامی بم قرار دیا گیا بلکہ امریکہ اور اسرائیل نے اِسے نادیدہ خطرے سے تعبیر کیا ، مغرب کے قول و فعل میں اِس دوعملی کی کیا وجوہات ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:یہ بالکل صحیح ہے کہ بھارت نے امریکہ اور کینیڈا کو دھوکہ دے کر ان کے دیئے ہوئے ری ایکٹر اور ہیوی واٹر کو استعمال کر کے پلوٹونیم بنا کر ایٹم بم میں استعمال کیا تھا۔ ہمارے خلاف مغربی اور ہندو قومیں اس لئے صف آراءہوئی ہیں کیونکہ ماضی میں ان کو مسلمانوں کی تہذیب و تمدن نے روند ڈالا تھا۔صلیبی جنگیں اسی کی کڑیاں تھیں اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اسی گھٹیا نفسیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ہم سے ان کی یہ دشمنی قیامت تک جاری رہے گی کیونکہ وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ ہمارے مذہب اورتہذیب و تمدن نے ان کی تہذیبی جڑوں کو ہلا دیا تھااور وہ لوگ یہ بات آج تک نہیں بھولے ہیں۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ بتانا چاہیں گے کہ 80کی دہائی میں بھارتی صحافی کلدیپ نائیر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کے پس پردہ اثرات کے تحت کام کرتے ہیں کی مشاہد حسین سید کے ہمراہ آپ سے ملاقات کی کیا اہمیت تھی اور کیا آپ اِس ملاقات کے ذریعے ہندوستان پر واضح کرنا چاہتے کہ Hand off from Pakistan\\\" \\\" کیونکہ اُس وقت پاکستان ایک خاموش ایٹمی طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جس کا کھلم کھلا اظہار چاغی ایٹمی دھماکوں کی شکل میں ممکن ہوا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں وہ چالاک ہندو صحافی مجھ سے الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے تھے، میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ 1965ءیا 1971ءکی بات نہیں اب اگرہندوستان نے جارحیت کی تو ہم بھی اُسکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔اس نے اس ذومعنی بات کا مطلب سمجھ لیا اور وہ تمام الفاظ میرے منہ میں ڈال دیئے جو میں نے نہیں کہے تھے تاکہ مغربی ممالک پریشان ہو جائیں اور ہماری امداد بند کر دیں۔ اس نے یہ انٹرویو ایک ہندو کال گرل پامیلابورڈیس سے نشر کرایا جو اس وقت سندھ آبزرور کے ایڈیٹر سے خصوصی تعلق رکھتی تھی۔ پھر بعد میں جنرل ضیاءالحق نے ہندوستانی اخبار کو انٹرویو میں ایسی ہی بات کہہ دی جس نے راجیو گاندھی کو بھی ہلا دیا تھا۔ اس وقت سے ہندوستان کی ہمارے خلاف کسی جارحیت کی جرا

¾ت نہیںہوئی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ آپ نے محترم مجید نظامی کے ہمراہ رائے ونڈ میںمیاں نواز شریف کے والد سے ملاقات کر کے جنرل پرویز مشرف کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ، اور کیا یہ بھی درست ہے کہ چاغی دھماکوں کے تاریخی موقع پر آپ نے جنرل پرویز مشرف کو شراب پی کر آنے پر ملامت کی تھی اور کیا اِس کا بدلہ پرویز مشرف نے وزارت دینے کی آڑ میں خان ریسرچ لیبارٹریز سے آپکی ریٹائرمنٹ اور نائین الیون کے بعد آپ کی نظربندی کی شکل میں دیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں! یہ بالکل صحیح ہے کہ مجید نظامی صاحب اور میں رائے ونڈ میں میاں محمد شریف(مرحوم) سے ملے تھے اور میں نے صاف صاف بات کی تھی اور میاں شریف صاحب نے نواز شریف سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا۔ وہ بولے کہ چوہدری نثار نے مشورہ دیا تھا۔ جبکہ پینے پلانے والی بات چاغی کے دھماکوں سے متعلقہ نہیں ہے۔ اِس سے قبل مشرف منگلہ میں تعینات تھاجب تو وہ چاغی میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے ، و ہ پینے پلانے والی بات 6اپریل 1998ءکی ہے جب ہم ٹِلّہ رینج سے غوری میزائل داغ رہے تھے۔ یہ شخص (مشرف) نہایت کم عقل، جھوٹا اور سخت کینہ پرور ہے جو عوام کے سامنے اور پوری دنیا کے سامنے جھوٹ بولتا رہا ہے اور تاثر یہ دیتا رہا ہے کہ بڑا بہادر کمانڈوہے مگردر حقیقت بے حد بزدل ہے اس نے کسی جنگ میں ایک گولی نہیں چلائی۔(جاری ہے)


ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں


07 جون 20121

رانا عبدالباقی :صدر پرویز مشرف نے 2006ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتا ب In The Line Of Fire\\\" \\\" میں تذکرہ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اُنہوں نے آپ کو KRL سے علیحدہ کر نے کا تہیہ کر لیا تھا جبکہ 2001ءمیں آپ کو ترقی دیکر نہ صرف وزیر مملکت بنا دیا گیا بلکہ27 مارچ 2001ءمیں آپ کے اعزاز میں ایک سرکاری ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے آپ کی تعریف میں جو کچھ کہا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے ، میں اُن کی طویل تقریر سے صرف دوجملوں پیش کرنے کی اجازت چاہونگا جس میں اُنہوں نے آپ کی شان میں فرمایا تھا کہ ”آخر کار اللہ نے قوم کی دعائیں سن لیں ، ہماری صورتحال پر رحم آگیا ، ایک معجزہ رونما ہوا اور پردہ غیب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل نابغہ کا ظہور ہوا اور یہ نابغہ روزگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ، ایسے نابغہ جس نے تن تنہا قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کر دیا، جناب ڈاکٹر صاحب مجھے رسمی طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانے کی اجازت دیجئے کہ قوم کو آپ نے جو کچھ دیا ہے اُس کےلئے یہ قوم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی ہمیشہ آپ کی ممنونِ احسان رہے گی ،آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور ہماری آئندہ نسلوں کے مبداءفیضان ہیں ، کوئی شخص بھی آپ سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتا کیونکہ تاریخ میں آپ کے مقام کا تعین ہوچکا ہے“ ۔ چنانچہ مندرجہ بالا تناظر میں یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا نائین الیون کے بعد سے 2006ءتک پرویز مشرف مکمل طور پر CIA کی لائین پکڑ چکے تھے وگرنہ بطور چیف ، قومی ایٹمی ادارے کے سربراہ ہونے کے باوجود پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلقہ تفصیلات کو کلی طور پر بیرونی دنیا کے سامنے expose کرنے کا کیا مقصد تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی آپ خود ہی اس جھوٹے شخص کے تحریری بیانات دیکھ لیجئے27مارچ 2001ءمیں وہ میری شان میں قصیدے پڑھ رہاتھا اور زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا ۔ وہ تقریر میں نے تو اُسے لکھ کر نہیں دی تھی اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ میں نے اس کی تقریر کا دو الفاظ میں بھی جواب نہیں دیا تھا ایسی ہی کئی اور باتیں تھیں جن کی وجہ سے وہ میرا جانی دشمن بن گیا ۔ مشرف نے 2001ءمیں ہی 9/11کے بعد امریکی غلامی کر لی تھی اور امریکن اور برٹش تو میرے خون کے پیاسے تھے ہی مشرف نے امریکی ایجنڈے پر کام شروع کر دیااور وہ کام جو پوری مغربی دنیا ہمارے خلاف نہ کر پائی تھی وہ اس بزدل ڈکٹیٹر نے اُن کےلئے کر دیا۔ اس نے اپنی کتاب میں جو باتیں نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں لکھی ہیں وہ ملک سے غداری کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس پر اس کو پھانسی یا عمر قید کی سزا ملنی چاہئے۔
رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ مشرف اپنی ذاتی کمزوریوں کے سبب بیرونی دبا برداشت نہ کر سکے اور جوہری پھیلا کی تمام ذمہ داری کمال عیاری سے آپ کے سر تھوپنے کےلئے پاکستان کی سلامتی کے نام پر آپ سے سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دلوایا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جب آپ پرویز مشرف کے دبا میں نہیں آئے تو مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کے ذریعے خدا اور رسول کے واسطے دیکر آپ کو پاکستان کی سلامتی کی خاطر سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دینے پر مجبور کیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: مشرف بزدل اور ڈرپوک تھا اور مجھ سے ذاتی دشمنی تھی اس لئے نہ صرف مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیابلکہ ہمارے پروگرام سے متعلق حساس قسم کا سامان پہنچانے والے ذرائع کو بھی اس نے بہت نقصان پہنچایا۔میں کسی قسم کا بیان دینے کو تیار نہیں تھا مگر میرے عزیز اور محترم دوستوں چوہدری شجاعت حسین اور ایس ایم ظفر صاحب نے ملک کی سلامتی کی خاطر دوستانہ مشورہ دیا کہ میں بیان پڑھ دوں اس بیان میں لا تعداد لغویات تھیں مگر ملک کی خاطر میں نے یہ بیان پڑھ دیا ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نہ ہی NPT اور نہ ہی NSGپر دستخط کئے تھے اور ہم کسی کو کسی قسم کی معلومات یا کسی کے خلاف کارروائی کرنے کے پابند نہ تھے۔ اس جاہل نے اپنے آپ کو شاہ (امریکہ) کا وفادار ثابت کرنے کےلئے مجھ سے بیان دلوا کر پاکستان کو مجرم بنا دیا۔ میں تو ایک شخص واحد تھا قربانی کے جذبے سے ہی پاکستان آیا تھا، جلدیا بدیر خالق حقیقی سے جا ملتا اور پاکستان پر آنچ تک نہ آتی۔ مشرف کو جان لینا چاہئیے تھا کہ ہم 20سال تک بم بنانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔وہ الزام لگاتے رہتے اور ہم یہاں انکار کرتے رہتے مگر یہ بات ایک کم تر تعلیم رکھنے والے شخص کے دماغ میں کس طرح سماسکتی تھی۔ میں نے بہر حال اس لکھے ہوئے کاغذ میں ایک ترمیم اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے ضرور کرائی تھی کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ نیک نیتی سے کیا ہے۔ ایک ا ور بات یہ جو جوہری ٹیکنالوجی ہے وہ کسی کے باپ کی ملکیت نہیں تھی۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال کی محنت و مشقت سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی تھی اور میں نے یہ ٹیکنالوجی کسی کو بیچی نہیں تھی بلکہ اپنے وطن کو بغیر کوئی معاوضہ لئے دی تھی ، اِس سے کسی کو سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ میں یہ ٹیکنالوجی کسی کو دوں یا نہ دوں ۔ میں نے اپنے خاندان کی زندگی ، اپنی زندگی اور مستقبل کو دا پر لگا کر یہ چیز پاکستان کو بلا معاوضہ دی تھی جس کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں دو ارب ڈالر تھی اور پاکستان کو یہ چیز اتنی قیمت میں بھی کوئی نہ دیتا میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ، اپنے وطن کی مٹی سے وفا کی ہے۔مشرف نے اُسی روز پریس کانفرنس کی تھی کہ ڈاکٹر خان ایک آزاد شہری کی حیثیت سے با عزت زندگی گزار سکتے ہیں ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہوگی صرف ملک سے باہر جانے کےلئے حکومت سے این او سی لینا ہوگا اس نے مجھ سے خود بھی وعدہ کیا تھاکہ آپ کو بہت جلد ہی پوری طرح بحال کر دینگے لیکن اِس کے برعکس ہوا، اور دوسرے دن ہی مجھے نظر بند کر دیا گیا۔ میری بچی کاکمپیوٹر اٹھا کر لے گئے۔ ٹیلیفون لائن کاٹ دی اور ہمارے موبائل فون چھین لئے گئے ، میری غیر ملکی اہلیہ یہی سوچتی تھی کہ کیا بے لوث خدمت کا یہی صلہ ہے۔ چند دن بعد جنرل قدوائی اور ان کی بیگم ہم سے ملنے آئے اور وعدہ کیا کہ دو تین مہینے میں تمام پابندیاں ختم کر دی جائینگی۔ اس بات کو اب سات برس سے زیادہ ہوگئے اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ابھی تک گھر کے باہر اور آس پاس بے شمار لوگ موجود ہوتے ہیں اور آنے جانے والوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، سیکیورٹی ضرور ہونی چاہئیے لیکن مجھے قیدی بنا کر نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ یہی نہیں بلکہ ماضی میں ایک روز مجھے اور میری اہلیہ کو جبراً بنی گالہ لے جایا گیا اور آٹھ سفید پوشوں نے ہمارے پورے گھرکو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ بستر، الماری میں کپڑے، چند آلات، بنک کی فائلیں ، تمام بندوقیں سب لے گئے اور بہن اور بھائی تک پر آکر ملنے کےلئے صرف دو دن دیئے جاتے تھے۔ میری بیٹی کو جو لندن میں رہ رہی تھی ایک سال تک واپس نہیں آنے دیا گیا۔ اخبارات میں میری پوری طرح کردار کشی کی گئی اور ہر قسم کے جاہلانہ الزامات لگائے گئے۔ہمارے گھر میں ہمارے بیڈ روم، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، بیٹی کے روم اور نواسی کے روم میں ہر جگہ سننے والے آلات نصب کر دیئے گئے ۔ بیڈ رومز میں بستر کے ساتھ یہ آلات لگائے گئے تھے یہ جاہل شخص (مشرف) اِس زعم میں تھا کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہوگا۔ میں نے چند دن میں ہی تمام آلات کو تلاش کر لیا تھا اور اگرہمیں کچھ ذاتی بات کرنی ہوتی تھی باہر لان پر جاکر کر لیتے تھے۔ یہ تمام بدمعاشیاں اس وقت ختم ہوئیں جب لاہور ہائی کورٹ کے جج اعجاز احمد چوہدری صاحب نے مجھے ایک آزاد شہری کی حیثیت سے رہنے اور لوگوں سے ملنے اور ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت دی ، میں اُن کا شکر گزار ہوں ۔
رانا عبدالباقی : تو گویا، سرکاری چینل پر پڑھا جانے والا بیان نہ تو آپ کا لکھا ہوا تھا اور نہ ہی آپکے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا تھا بلکہ یہ بیان سرکاری ٹیلی ویژن پر پڑھنے کیلئے مبینہ طور پر آپ کو ملک کے بہترین مفاد میں دیا گیا تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں ایسا ہی ہے۔ یہ بیانSPDنے تیار کیا تھا اور شاہ (امریکہ) سے زیادہ وفاداری ثابت کرنے کےلئے اس میں مجھے ملوث کرنے کے لئے اس قدر جھوٹ لکھا گیاکہ پوری دنیا کو فوراً ہی علم ہوگیا کہ یہ ایک مفروضہ بیان ہے جسے میرے ہاتھ میں پڑھنے کےلئے تھما دیا گیا تھا۔ میں نے صرف اور صرف ملک کے بہترین مفاد میں یہ بیان پڑھ دیا ورنہ ٹیکنالوجی نہ تو میں نے اُن کو بیچی تھی اور نہ ہی اِس کے بدلے کوئی ایک روپیہ معاوضہ لیا تھا لیکن یہ ٹیکنالوجی بہرحال سینکڑوں سائنسدانوں کی شب وروز محنت کا نتیجہ تھی اور میں خود بھی اِن میں شامل تھا اور اِن ملکوں نے یہ ٹیکنالوجی 2ارب ڈالر خرچ کر کے حاصل کی تھی۔(جاری ہے)
رانا عبدالباقی : جناب عالی، مشرف کی کتاب میں جوہری پھیلا کے حوالے سے چیپٹر 27میں دی گئی متضاد معلومات پڑھ کر عام قاری کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مشرف حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں ۔ 2006ءمیں لکھی کتاب میں 1999ءسے ہی آپ کے کردار پر شبہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن مشرف شاید لکھتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ مارچ 2001ءتک تو وہ آپ کی تعریفوں کے پُل ہی باندھتے رہے اور یہ سلسلہ 2003ءتک جاری رہا جب صدر بش کے کہنے پر اُن کی ملاقات ایٹمی پھیلا کے موضوع پر امریکی سی آئی اے چیف سے ہوئی ۔ اپنی کتاب میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سی آئی اے چیف نے اُنہیں سینٹری فیوج کے نقشے دکھاتے ہوئے آپ پر کسی الزام کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے جو کچھ کہا وہ حرف بحرف درست ہے آپ مشرف کی تحریروں اور بیانات میں تضاد دیکھ لیجئے، کہا جاتا ہے جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے لیکن میں کہونگا کہ جھوٹے کا دماغ نہیں ہوتا وہ خود بھول جاتا ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا۔ اس نے خود ہی لکھا ہے کہ نہ ہی سی آئی اے کے سربراہ نے میرا نام لیا تھا اور نہ ہی کسی ڈرائنگ پر میرا یا کے آر ایل کا نام تھا مگر اس کند ذہن کو جو کچھوے کے منہ اور دم میں تمیز نہیں کرسکتا، کہتا ہے کہ میں نے ڈرائنگ کو دیکھ کر فوراً ہی پہچان لیاکہ وہ P-1کی ہےں۔حالانکہ P-1 توہم نے 1982ءمیں بنانا بند کر دی تھیں اور P-IIلگا دی تھیں۔1998ءمیں چیف بننے سے پہلے مشرف کو کہوٹہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایران اور لیبیا کے حوالے سے صرف اتنا کہونگا کہ چونکہ یورپ کے چند سپلائرز وہی تھے جنہوں نے ہمیں سامان مہیا کیا اور وہ ہی ایران اور لیبیا کو سامان بیچ رہے تھے چنانچہ امریکیوں نے بجائے اُن کے مجھے قربانی کا بکرا بنانا آسان سمجھا کیونکہ یہاں اُن کے احکام کی تابعداری کے لئے اُنہیں ایک ڈکٹیٹر مل گیا تھا۔
رانا عبدالباقی :مشرف جانتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت مغرب کے ایٹمی پُرزوں کے سپلائرز کی مرہون منّت تھی جبکہ قرائین یہی کہتے ہیں کہ مبینہ ایٹمی پھیلا میں ملوث دیگر ممالک بشمول ایران ، شمال کوریا اور لیبیا بھی بظاہر اِنہی مغربی ملکوں کے سپلائرز کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے لیکن اِن میں سے کوئی بھی ملک ابھی تک ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ مشرف کی کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی بھارتی میڈیا میں مشرف کی کتاب کی تمام تر معلومات اہم خبر کے طور پر نشر کر دی گئی تھی ، اِسے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بات سچ ہے کہ شمالی کوریا کے سوا باقی دو ممالک ان ہی مغربی تاجروں سے تمام سامان خرید رہے تھے۔مشرف نے اپنی کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں اگر کسی اور ملک میںکوئی شخص ایسا لکھتا تو اُسے پھانسی مل گئی ہوتی مگر ہمارے ملک میں غدار پھلتے پھولتے ہیں، بغاوت کرتے ہیں ،حکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔
رانا عبدالباقی : پرویز مشرف صدر مملکت کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد اِس اَمر کے پابند تھے کہ بطور صدر اُن کے نوٹس میں آنے والی معلومات کو وہ براہ راست یا بلواسطہ طور پر سرکاری ذمہ داری نبھانے کے سوا کسی پر آشکار نہیں کریں گے تو کیا صدر مملکت کے طور پر بھاری معاوضے کے حصول پر اِس کتاب میں خفیہ جوہری معلومات کا تذکرہ اُن کے حساس عہدے کے منافی نہیں تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے اس نے کسی سے اجازت طلب نہیں کی نہ صرف تمام راز امریکہ اور دوسرے ممالک کو دے دیئے بلکہ سنٹری فیوج مشین کوبھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے حوالے کر دی۔ اگر امریکن اس سے کہتے ہیں اُن کے سامنے ننگا ناچ کر دکھائے تو وہ ایسا بھی ضرور کرتا، کیونکہ مشرف ہر حال میں اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر کے طور منوانے کےلئے بیتاب تھا۔
رانا عبدالباقی :جناب عالی ایک سابق برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن جو اب امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں نے آر جعفری سمتھ کے مضمون میں شمالی کوریا کے جون بیونگ کے خط کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے لیکن چونکہ اِس دوران آپ نظر بند تھے تو کیا سائمن نے یہ خط آپ کی نظر بندی کے دوران آپ سے حاصل کیا تھا اور کیا نظر بندی کے دوران مشرف حکومت نے ایٹمی پھیلا سے متعلق کسی بیرونی ایجنسی کو آپ سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:نظر بندی کے دوران مجھ سے کسی بیرونی قوت یا ایجنسی نے بات چیت نہیں کی۔ مشرف ڈرتا تھا کہ اگر اس نے کسی کوملنے کی اجازت دی تو میں ہر چیز کھل کے بتلا دونگا ۔جو خط میں نے اپنی بیگم کو دیا تھا اس کی کاپی ازراہ حفاظت بڑی بیٹی کو دیدی تھی جب وہ واپس لندن جا رہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط نکال لیا اور اس نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مشرف نے اپنے کارندوں کے ذریعہ وہ خط امریکہ کو دیا۔ امریکی حکومت ایسی چیزیں مناسب وقت پر سی آئی اے کے ذریعہ اپنے معتبر اخبار نویس یا صحافی کو دے کر افشاں (یعنی لیک) کر دیتے ہیں یہاں بھی یہی ہوا ہے۔
رانا عبدالباقی :اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن سے نہ توآپ کی ملاقات ہوئی اور نہ ہی آپ نے یہ خط اس کے حوالے کیا تھا تو پھر قومی مفادات کے بر خلاف یہ کہانی کس کی تیار کر دہ تھی اور کیا سائمن ہنڈرسن کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ 1980ءسے بذریعہ خط و کتابت آپ کے ساتھ رابطے میں تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی نہیں میری سائمن ہنڈرسن سے 1997ءکے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اِس سے قبل بعض اوقات وہ پاکستان کے بارے میں غیر ممالک میں شائع ہونے والے الزامات کے بارے میں مجھ سے پوچھتے تھے اور میں اس کی تردید کر دیا کرتا تھا۔ وہ ایک اچھے صحافی ہیں اور عموماً پاکستان کے لئے اچھے مضامین لکھتے رہے ہیں جس خط کا حوالہ دیا گیا ہے وہ میں نے اپنی بیگم کو لکھ کر د یا تھاانہوں نے احتیاطاً بڑی بیٹی کو دیدیا تھا کہ وہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیں لیکن جب وہ لندن جارہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط میری بیٹی دینا کے سوٹ کیس سے نکال لیا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب اور پریس کانفرنس میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ خط اسی نے سی آئی اے کو دیا اور وہاں سے انہوں نے اس کو افشاں کر دیا کہ عوام کی نگاہ میں میری دقعت اور عزت کم ہو جائے۔ جو شخص حساس سنٹری فیوج مشینیں امریکیوں کو دے سکتا ہے اس کے مقابلے میں اس خط کی کیا حیثیت تھی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں آپ کے خلاف ہرزہ سرائی پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے 2007ءمیں آپ کی مالی خستہ حالی کے پیش نظر پنشن میں مناسب اضافہ کیا تھا اور کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایٹمی حوالے سے اُن کی کتاب میں کیا جانے والا تذکرہ ماضی میں آپ کی جانب سے جنرل مشرف کو چیف آف سٹاف بنانے پرآپ کی میاں شریف مرحوم سے ملاقات کا شاخسانہ تھا اور محض ایک انتقامی کاروائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں یہ بالکل سچ ہے ۔ اُس نے بے بنیادالزامات لگائے تھے اور اس کے کارندے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کم از کم دس کروڑ ڈالر تو ہونگے لیکن کچھ عرصہ بعد حقائق سامنے آگئے کہ ہم بہت مشکل سے گزارہ کر رہے تھے اور کراچی سے میری بہن اور بڑے بھائی ہر مہینہ اگرچہ کچھ رقم میری اہلیہ کو دے جاتے تھے تو گزارا ہوتا تھا ۔ پھر مشرف نے اسپیشل پنشن مقرر کردی کیونکہ 25 برس تک ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد میری پنشن صرف4467روپے تھی یہ صلہ دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت فراہم کرنے اور اپنی خاندانی زندگی کو اور مغرب میں اعلیٰ پیمانے کی زندگی گزارنے کو تباہ کرنے کی پاداش میں ملا تھا مشرف کو تو مجھ سے خدائی بغض تھا بہت سی باتیں تھیں دوسرے اس کے آگے لیٹ جاتے تھے اور میں منہ پر اسکو اچھا سخت جواب دیدیتا تھا۔ یہ شخص میری گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا اور چیف بننے کے بعد احساس کمتری کا شکار تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا ماضی میں آپ کے خلاف ایٹمی دستاویزات کے غلط استعمال پر یورپ میں کوئی مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور اِس مقدمے میں آپ کو بری کئے جانے کے باوجود آپ کے خلاف مغربی پروپیگنڈے میں کمی کیوں نہیں آئی جبکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی دھماکوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ نہ ہونے کے برابر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں 1983ءمیں ہالینڈمیں میری غیر موجودگی میں جھوٹا الزام لگا کرمقدمہ چلا کر 4سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن میں نے ایس ایم ظفر صاحب اور دوڈچ و کیلوں کی معاونت کے ساتھ اپیل کر دی تھی اور مقدمہ جیت لیا تھا اور خود پبلک پراسیکیوٹر نے لکھ کر دیا کہ انہیں کبھی بھی شک نہ تھا کہ میں نے کوئی جاسوسی کی ہے مگر چھوٹی عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ سنا دیا تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پوکھران بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ایٹمی دھماکے کی شدت جس نے چاغی کی پہاڑیوں کو سلگنے پر مجبور کر دیا ، دنیا بھر میں اب تک ہونے والے ایٹمی تجرباتی دھماکوں سے کہیں زیادہ قوت کی حامل تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: نہیں یہ بات نہیں ہے۔ اس قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت کم و بیش برابر ہی ہوتی ہے پانچ فیصد فرق کے اندر ہی اندر ان کی قوت میں فرق ہوتا ہے۔
رانا عبدالباقی :آپ کی نظر بندی کے دوران آپ کے خلاف لگنے والے ایٹمی پھیلا کے الزامات پر آپ کی صاحبزادی نے مغربی پریس کی غلط فہمیاں دور کرنے کےلئے لندن میں قابل ذکر کردار ادا کیا تھا ، کیا آپ اِس کے بارے میں کہنا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میری بڑی بیٹی ہی نہیں بلکہ میرے تمام بہن بھائیوں نے اور میری اہلیہ نے نہایت صبر و ہمت سے ان تمام تکالیف کا حوصلہ سے مقابلہ کیا اور وہ میرے لئے بہت ہی مفید و کار آمد بات تھی کہ مجھے کبھی پریشانی کا احساس نہیں ہوا۔ مجھے علم تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جو کچھ حکومت کہتی رہی اس پر ہی عمل کیا۔ بڑی بیٹی چونکہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہے اور نہ صرف بہادر ہے بلکہ بہت اچھی لکھنے اور بولنے والی ہے اس نے ہر جگہ میرے خلاف ہونے والی بد معاشی کا منہ توڑ جواب دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں....قسط (۵)
کالم نگار  |  رانا عبدالباقی
11 جون 20120
رانا عبدالباقی : جناب عالی، مشرف کی کتاب میں جوہری پھیلا کے حوالے سے چیپٹر 27میں دی گئی متضاد معلومات پڑھ کر عام قاری کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مشرف حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں ۔ 2006ءمیں لکھی کتاب میں 1999ءسے ہی آپ کے کردار پر شبہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن مشرف شاید لکھتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ مارچ 2001ءتک تو وہ آپ کی تعریفوں کے پُل ہی باندھتے رہے اور یہ سلسلہ 2003ءتک جاری رہا جب صدر بش کے کہنے پر اُن کی ملاقات ایٹمی پھیلا کے موضوع پر امریکی سی آئی اے چیف سے ہوئی ۔ اپنی کتاب میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سی آئی اے چیف نے اُنہیں سینٹری فیوج کے نقشے دکھاتے ہوئے آپ پر کسی الزام کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے جو کچھ کہا وہ حرف بحرف درست ہے آپ مشرف کی تحریروں اور بیانات میں تضاد دیکھ لیجئے، کہا جاتا ہے جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے لیکن میں کہونگا کہ جھوٹے کا دماغ نہیں ہوتا وہ خود بھول جاتا ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا۔ اس نے خود ہی لکھا ہے کہ نہ ہی سی آئی اے کے سربراہ نے میرا نام لیا تھا اور نہ ہی کسی ڈرائنگ پر میرا یا کے آر ایل کا نام تھا مگر اس کند ذہن کو جو کچھوے کے منہ اور دم میں تمیز نہیں کرسکتا، کہتا ہے کہ میں نے ڈرائنگ کو دیکھ کر فوراً ہی پہچان لیاکہ وہ P-1کی ہےں۔حالانکہ P-1 توہم نے 1982ءمیں بنانا بند کر دی تھیں اور P-IIلگا دی تھیں۔1998ءمیں چیف بننے سے پہلے مشرف کو کہوٹہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایران اور لیبیا کے حوالے سے صرف اتنا کہونگا کہ چونکہ یورپ کے چند سپلائرز وہی تھے جنہوں نے ہمیں سامان مہیا کیا اور وہ ہی ایران اور لیبیا کو سامان بیچ رہے تھے چنانچہ امریکیوں نے بجائے اُن کے مجھے قربانی کا بکرا بنانا آسان سمجھا کیونکہ یہاں اُن کے احکام کی تابعداری کے لئے اُنہیں ایک ڈکٹیٹر مل گیا تھا۔
رانا عبدالباقی :مشرف جانتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت مغرب کے ایٹمی پُرزوں کے سپلائرز کی مرہون منّت تھی جبکہ قرائین یہی کہتے ہیں کہ مبینہ ایٹمی پھیلا میں ملوث دیگر ممالک بشمول ایران ، شمالی کوریا اور لیبیا بھی بظاہر اِنہی مغربی ملکوں کے سپلائرز کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے لیکن اِن میں سے کوئی بھی ملک ابھی تک ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ مشرف کی کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی بھارتی میڈیا میں مشرف کی کتاب کی تمام تر معلومات اہم خبر کے طور پر نشر کر دی گئی تھیں ، اِسے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بات سچ ہے کہ شمالی کوریا کے سوا باقی دو ممالک ان ہی مغربی تاجروں سے تمام سامان خرید رہے تھے۔مشرف نے اپنی کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں اگر کسی اور ملک میںکوئی شخص ایسا لکھتا تو اُسے پھانسی مل گئی ہوتی مگر ہمارے ملک میں غدار پھلتے پھولتے ہیں، بغاوت کرتے ہیں ،حکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔
رانا عبدالباقی : پرویز مشرف صدر مملکت کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد اِس اَمر کے پابند تھے کہ بطور صدر اُن کے نوٹس میں آنے والی معلومات کو وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر سرکاری ذمہ داری نبھانے کے سوا کسی پر آشکار نہیں کریں گے تو کیا صدر مملکت کے طور پر بھاری معاوضے کے حصول پر اِس کتاب میں خفیہ جوہری معلومات کا تذکرہ اُن کے حساس عہدے کے منافی نہیں تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے اس نے کسی سے اجازت طلب نہیں کی نہ صرف تمام راز امریکہ اور دوسرے ممالک کو دے دیئے بلکہ سنٹری فیوج مشین بھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے حوالے کر دی۔ اگر امریکن اس سے کہتے ہیں اُن کے سامنے ننگا ناچ کر دکھائے تو وہ ایسا بھی ضرور کرتا، کیونکہ مشرف ہر حال میں اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر کے طور منوانے کےلئے بیتاب تھا۔
رانا عبدالباقی :جناب عالی ایک سابق برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن جو اب امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں نے آر جیفری سمتھ کے مضمون میں شمالی کوریا کے جون بیونگ کے خط کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے لیکن چونکہ اِس دوران آپ نظر بند تھے تو کیا سائمن نے یہ خط آپ کی نظر بندی کے دوران آپ سے حاصل کیا تھا اور کیا نظر بندی کے دوران مشرف حکومت نے ایٹمی پھیلا سے متعلق کسی بیرونی ایجنسی کو آپ سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:نظر بندی کے دوران مجھ سے کسی بیرونی قوت یا ایجنسی نے بات چیت نہیں کی۔ مشرف ڈرتا تھا کہ اگر اس نے کسی کوملنے کی اجازت دی تو میں ہر چیز کھل کے بتلا دونگا ۔جو خط میں نے اپنی بیگم کو دیا تھا اس کی کاپی ازراہ حفاظت بڑی بیٹی کو دیدی تھی جب وہ واپس لندن جا رہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط نکال لیا اور اس نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مشرف نے اپنے کارندوں کے ذریعہ وہ خط امریکہ کو دیا۔ امریکی حکومت ایسی چیزیں مناسب وقت پر سی آئی اے کے ذریعہ اپنے معتبر اخبار نویس یا صحافی کو دے کر افشا(یعنی لیک) کر دیتے ہیں یہاں بھی یہی ہوا ہے۔
رانا عبدالباقی :اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن سے نہ توآپ کی ملاقات ہوئی اور نہ ہی آپ نے یہ خط اس کے حوالے کیا تھا تو پھر قومی مفادات کے بر خلاف یہ کہانی کس کی تیار کر دہ تھی اور کیا سائمن ہنڈرسن کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ 1980ءسے بذریعہ خط و کتابت آپ کے ساتھ رابطے میں تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی نہیں میری سائمن ہنڈرسن سے 1997ءکے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اِس سے قبل بعض اوقات وہ پاکستان کے بارے میں غیر ممالک میں شائع ہونے والے الزامات کے بارے میں مجھ سے پوچھتے تھے اور میں اس کی تردید کر دیا کرتا تھا۔ وہ ایک اچھے صحافی ہیں اور عموماً پاکستان کے لئے اچھے مضامین لکھتے رہے ہیں جس خط کا حوالہ دیا گیا ہے وہ میں نے اپنی بیگم کو لکھ کر د یا تھاانہوں نے احتیاطاً بڑی بیٹی کو دیدیا تھا کہ وہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیں لیکن جب وہ لندن جارہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط میری بیٹی دینا کے سوٹ کیس سے نکال لیا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب اور پریس کانفرنس میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ خط اسی نے سی آئی اے کو دیا اور وہاں سے انہوں نے اس کو افشا کر دیا کہ عوام کی نگاہ میں میری دقعت اور عزت کم ہو جائے۔ جو شخص حساس سنٹری فیوج مشینیں امریکیوں کو دے سکتا ہے اس کے مقابلے میں اس خط کی کیا حیثیت تھی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں آپ کے خلاف ہرزہ سرائی پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے 2007ءمیں آپ کی مالی خستہ حالی کے پیش نظر پنشن میں مناسب اضافہ کیا تھا اور کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایٹمی حوالے سے اُن کی کتاب میں کیا جانے والا تذکرہ ماضی میں آپ کی جانب سے جنرل مشرف کو چیف آف سٹاف بنانے پرآپ کی میاں شریف مرحوم سے ملاقات کا شاخسانہ تھا اور محض ایک انتقامی کاروائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں یہ بالکل سچ ہے ۔ اُس نے بے بنیادالزامات لگائے تھے اور اس کے کارندے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کم از کم دس کروڑ ڈالر تو ہونگے لیکن کچھ عرصہ بعد حقائق سامنے آگئے کہ ہم بہت مشکل سے گزارہ کر رہے تھے اور کراچی سے میری بہن اور بڑے بھائی ہر مہینہ اگرچہ کچھ رقم میری اہلیہ کو دے جاتے تھے تو گزارا ہوتا تھا ۔ پھر مشرف نے اسپیشل پنشن مقرر کردی کیونکہ 25 برس تک ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد میری پنشن صرف 4467 روپے تھی یہ صلہ دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت فراہم کرنے اور اپنی خاندانی زندگی کو اور مغرب میں اعلیٰ پیمانے کی زندگی گزارنے کو تباہ کرنے کی پاداش میں ملا تھا مشرف کو تو مجھ سے خدائی بغض تھا بہت سی باتیں تھیں دوسرے اس کے آگے لیٹ جاتے تھے اور میں منہ پر اسکو اچھا سخت جواب دیدیتا تھا۔ یہ شخص میری گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا اور چیف بننے کے بعد احساس کمتری کا شکار تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا ماضی میں آپ کے خلاف ایٹمی دستاویزات کے غلط استعمال پر یورپ میں کوئی مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور اِس مقدمے میں آپ کو بری کئے جانے کے باوجود آپ کے خلاف مغربی پروپیگنڈے میں کمی کیوں نہیں آئی جبکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی دھماکوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ نہ ہونے کے برابر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں 1983ءمیں ہالینڈمیں میری غیر موجودگی میں جھوٹا الزام لگا کرمقدمہ چلا کر 4سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن میں نے ایس ایم ظفر صاحب اور دوڈچ و کیلوں کی معاونت کے ساتھ اپیل کر دی تھی اور مقدمہ جیت لیا تھا اور خود پبلک پراسیکیوٹر نے لکھ کر دیا کہ انہیں کبھی بھی شک نہ تھا کہ میں نے کوئی جاسوسی کی ہے مگر چھوٹی عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ سنا دیا تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پوکھران بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ایٹمی دھماکے کی شدت جس نے چاغی کی پہاڑیوں کو سلگنے پر مجبور کر دیا ، دنیا بھر میں اب تک ہونے والے ایٹمی تجرباتی دھماکوں سے کہیں زیادہ قوت کی حامل تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: نہیں یہ بات نہیں ہے۔ اس قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت کم و بیش برابر ہی ہوتی ہے پانچ فیصد فرق کے اندر ہی اندر ان کی قوت میں فرق ہوتا ہے۔
رانا عبدالباقی :آپ کی نظر بندی کے دوران آپ کے خلاف لگنے والے ایٹمی پھیلا کے الزامات پر آپ کی صاحبزادی نے مغربی پریس کی غلط فہمیاں دور کرنے کےلئے لندن میں قابل ذکر کردار ادا کیا تھا ، کیا آپ اِس کے بارے میں کہنا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میری بڑی بیٹی ہی نہیں بلکہ میرے تمام بہن بھائیوں نے اور میری اہلیہ نے نہایت صبر و ہمت سے ان تمام تکالیف کا حوصلہ سے مقابلہ کیا اور وہ میرے لئے بہت ہی مفید و کار آمد بات تھی کہ مجھے کبھی پریشانی کا احساس نہیں ہوا۔ مجھے علم تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جو کچھ حکومت کہتی رہی اس پر ہی عمل کیا۔ بڑی بیٹی چونکہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہے اور نہ صرف بہادر ہے بلکہ بہت اچھی لکھنے اور بولنے والی ہے اس نے ہر جگہ میرے خلاف ہونے والی بد معاشی کا منہ توڑ جواب دیا۔
رانا عبدالباقی :آپ نے یورپ کی آزاد فضاں کو چھوڑ کر پاکستان تشریف لا کرملکی سلامتی کےلئے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ، آپ کی اہلیہ اِس دوران انتہائی وفاداری سے آپ کا ساتھ دیتی رہی ، کیا آپ سمجھتے ہیں مغربی سماج میں پرورش پانے کے باوجود اُن کا یہ تاریخی کردار اعلیٰ مشرقی روایات سے بھی بڑھ کر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بالکل ٹھیک ہے میری بیگم نہایت بہادر اور وطن پرست ہیں میرا خیال ہے کہ کوئی پاکستانی بیگم اتنا پریشر برداشت نہیں کر پاتی۔ اُن کی ہمت اور مدد کی وجہ سے ہی میں اتنا بڑا کام کر پایا۔ کسی زمانہ میں ہمارے ملحقہ گیسٹ ہاس میں ہم غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کی میٹنگز کیا کرتے تھے اور غلام اسحق خان صاحب میرے گھر آکر میری بیگم سے ملتے تھے اور اُس کاشکریہ ادا کرتے تھے حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر اُن کی مدد میرے شامل حال نہ ہوتی تو کہوٹہ کاکوئی نام بھی نہیں جانتا ۔آج کے سینہ پھلا کرچلنے والے اور کرپشن کے پیسے سے عیاشی کرنے والے پھر سے ہندوں کی غلامی کر رہے ہوتے۔ میں یہ ضرور عرض کرونگا کہوٹہ پروجیکٹ کی تکمیل میں میری ٹیم کے تمام رفقائے کار اور اُن کی بیگمات نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ہم سب نے اپنی خاندانی زندگی کو وطن کی بے لوث خدمت کے اس کام پرقربان کیاہے۔
رانا عبدالباقی :لوگ یہی کہتے ہیں اور ناچیز نے بھی آپ کےساتھ چند ملاقاتوں میں یہی محسوس کیا ہے کہ آپ پاکستانی ایٹم بم کے خالق ہونے کے باوجود انتہائی درد مند دل رکھنے والے انسان ہیںاور غریب و لا چار لوگوں کی مدد کےلئے دامے درمے سخنے مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، سفید پوش غریبوں کی مدد کےلئے آپ کی غیر معمولی دلچسپی کے پیچھے کونسا جذبہ متحرک ہے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:ہمارا خاندان بھوپال سے ہے اور وہاں بھر پور جنگلی شکار کا علاقہ ہے لیکن بے حد نرم دل تھے میرے والدین( اللہ بخشے۔آمین) بے حد نرم دل تھے ہمیں کبھی غلیل تک استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہی حال میری بیگم، بچیوں اور بہن بھائی کا ہے ہم ہمیشہ پرندوں ، بلیوں اور بندروں وغیرہ کو غذا دیتے ہیں اور اسلام آباد میں بھی ہمارے گھر 20-15بندر روز آتے ہیں اور ہاتھ سے پھل اور ڈبل روٹی لے کر کھاتے ہیں۔جوہری بم کا خالق ہونا کسی ظلم کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ میں وضاحت کرنا چاہوںگا کہ ہم نے ایٹم بم کسی کو مارنے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کی جان بچانے اور ملک کی سلامتی کی حفاظت کےلئے بنایا گیا ہے۔ بھارتی ایٹمی دھماکے ضرور خطے میں جوہری بالا دستی کے حوالے سے کئے گئے تھے لیکن چاغی کے دھماکے خطے میں پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کےلئے کئے گئے ہیں۔ سوائے مشرف کی کارگل کی بدمعاشی کے گذشتہ 40سال میں ہماری ہندوستان سے کوئی جنگ نہیں ہوئی اور انشاءاللہ پاکستان کے جوہری قوت بننے کے بعدکبھی نہیں ہوگی کیونکہ اب ہندوستان بھی مانتا ہے کہ جنگ سے اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لہذا، چاغی دھماکے امن کے ہتھیار کی دلیل ہیں ۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ اپنے والدین کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گے بل خصوص آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ کے کردار کے بارے میں آپ کے پرستار ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی صلاحیت کے حامل شخص کی بنیادی تربیت کس طرح ہوئی؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میرے والدین بہت ہی نرم، مہربان اور نہایت شفقت کرنے والے انسان تھے ۔ والد نے زندگی
میں کبھی ڈانٹا بھی نہیں مگروالدہ نے ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا کہ ہم وقت پر اسکول جائیں، رات کو روزانہ پڑھیں، گھر کا کام کریںاور کسی غلط صحبت میں نہ بیٹھیں۔ یہ اُن کی نگرانی کااثر رہا کہ ہم سب تعلیم حاصل کر سکے۔ والد اور والدہ ہمیشہ محلہ کی بچیوں کو قرآن اور اسکول کی تعلیم مفت دیتے تھے اور قرآن شریف ختم کرنے اور امتحان میں پاس ہونے پر جوڑے اور نقد انعام دیتے تھے۔ میرے والدین بے حدہردلعزیز تھے۔
رانا عبدالباقی :سر اللہ آپ کوبھی بہت خوش رکھے آپ کو صحت کامل سے نوازے ۔ آپ فخر پاکستان ہیں ،آپ محسن پاکستان ہیں ، آپ قوم کے ہیرو ہیں، میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اِس طویل انٹرویو کےلئے وقت دیا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ۔


Your Feedback

Welcome

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں

ڈاکٹر عبدالقدیر خان .... کچھ یادیں‘ کچھ باتیں .... (۱)

24 مئی 20120 

محترم قارئین ، پاکستان کے شہرہ آفاق سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے آجکل بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور موبائل فون ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ، ایس ایم ایس، کے ذریعے بہت سی صحیح اور غلط باتیں اُن سے منسوب کرکے بھیجی جارہی ہیںجن میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خان کیونکہ مشرف حکومت کے زمانے میں بے معنی قید و بند کی سختیوں کا شکار رہے اور تکالیف کے اِس زمانے میں نوائے وقت گروپ نے بے لوث ہو کر اُنکی آزادی کی شمع کو روشن رکھا جس کا بالآخر عدالت عالیہ نے نوٹس لیا چنانچہ اب ڈاکٹر خان قدرے آزادی سے مختلف فورمز پر اپنا مافی الضمیرکھل کر بیان کر رہے ہیں ۔ راقم کو چند ماہ قبل ڈاکٹر خان سے اہم موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا تو بہت سے حقائق سے پردہ اُٹھا جو اب راقم کی کتاب کا حصہ بھی ہے ۔ قارئین کی دلچسپی کےلئے اِس گفتگو کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
راناعبدالباقی :محترم ڈاکٹر صاحب آپ قیام پاکستان کے تاریخی عوامل کو بخوبی سمجھتے ہیں ، ہندوستان کے طول و ارض میں انتہا پسند ہندوں کی جانب سے مسلم کش پالیسیوں کے باعث ہی فکرِ جناح ؒو اقبالؒ نے ہندوستان میں مسلمانوں کےلئے ایک علیحدہ وطن کی تحریک کو مہمیز دی ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر انتہا پسند ہندوں نے سردار پٹیل کی سرپرستی میں بہار ، بنگال ، مشرقی پنجاب ، کشمیر اور بالخصوص دہلی میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں حصہ لیکر جناح و اقبال کے خدشات کو درست ثابت کیا ؟
ڈاکٹرعبدالقدیر خان:یہ بالکل صحیح ہے تقسیم سے پہلے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہندوں نے مسلمانوں کو لوٹنا اور قتل کرناشروع کر دیا تھا۔ ممبئی میں بھی یہ فسادات روز مرہ کا کھیل بن گئے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ بہت ذی فہم اور دوربین نگاہ رکھنے والے قائدین تھے انہیں یقین تھا کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوا اور مسلمان اپنا علیحدہ ملک حاصل نہ کرسکے تو مسلمانوں کا مستقبل بہت تاریک ہوگا۔ ہندو بے حد متعصب اور عیار تھے اگر تقسیم نہ ہوتی تو ہندوں کی اکثریت آہستہ آہستہ مسلمانوں کو ختم کر دیتی اور اُنکا حشر اچھوتوں جیسا ہوجاتا۔ ویسے تو گاندھی اور نہرو دونوں ہی نہایت عیار تھے لیکن وہ یہ نفرت انگیز کام سردار پٹیل سے کراتے تھے۔ تقسیم کے فوراً بعد ہندوں نے دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا اور ہزاروں بے گناہ مسلمان شہید ہوئے مگر دارلحکومت دہلی میں موجود ہوتے ہوئے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے مسلمانوں کا قتل عام روکنے کےلئے کچھ نہیں کیا۔ و ہ چاہتے تھے کہ مسلمان یاتو قتل کر دیئے جائیں یا پاکستان ہجرت کر جائیں تا کہ انکی جائیدادوں پرہندو قبضہ کرسکیں۔
رانا عبدالباقی : جناب عالی آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دسمبر 1971ءمیں سقوط ڈھاکہ اور مئی 1974ءمیں بھارت کے جوہری دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی کی بابت بھارتی ناپاک عزائم پر پاکستانی قوم خدشات کا شکار تھی ، آپ اُس وقت ہالینڈ میں تھے کیا آپکی ذات گرامی بھی اضطراب و کرب کی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوئی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:تقسیم کے فوراً ہی بعد میرے دو بڑے بھائی پاکستان آ گئے تھے اور 1952ءمیں ہمارا باقی خاندان بھی کراچی پہنچ گیا۔ میں نے کراچی یونیورسٹی سے ہی بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور بعد میں مزید اعلیٰ تعلیم کےلئے برلن(جرمنی) کی اعلیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے چلا گیا۔ وہاں دو سال تعلیم حاصل کرکے ڈ یلفٹ (ہالینڈ) کی اعلیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی چلا گیا۔ جرمنی سے ہالینڈ منتقل ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ میر ی منگیتر کے والدین ہیگ میں رہتے تھے وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ میں نے وہاں اعلیٰ نمبروں سے ایم ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور ایک سال تک بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر جی ڈبلیو برگرس G.W.Burgers کے پاس ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ پھرمجھے بلجیم کی قدیم اور مشہوریونیورسٹی لیوون (Leuven) میں فیلو شپ ملی توہم وہاں چلے گئے ہماری دونوں بچیاں دینا اور عائشہ وہیں پیدا ہوئیں ۔ نومبر 1971ءمیںمیں نے ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی تھیسس پیش کر دی تھی اور اِسکے انٹرویو کی تاریخ کا انتظار کر رہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی جنگ شدت پکڑ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں وہاں TVپر دکھایا جاتا تھا کہ پاکستانی افواج نے وہاں بہت مظالم ڈھائے ہیں لیکن جب 16دسمبر 1971ءمیں پاکستانی افواج سے شرمناک طور پرہتھیار ڈلوائے گئے اور پاکستانی قیدی نہایت ذلت سے ہندوستان لے جائے گئے تو مجھے بے حد دکھ ہوا۔ میں کئی دن تک کھانا نہیں کھا سکتا تھا نوالہ حلق میں اٹک جاتا تھا۔ رات کو تنہائی اور اندھیرے میں آنسو بہتے رہتے تھے مگر میں مجبور تھا کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔ 1972ءکے شروع میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کرہم ایمسٹرڈیم چلے گئے وہاں مجھے ایک بہت بڑی کمپنی (VMF) میں اچھی ملازمت مل گئی۔ یہ کمپنی المیلوس زیرتعمیر یورینیم کی افزودگی کی فیکٹری کےلئے مشیر کا کام کرتی تھی اس طرح مجھے اس کام پر فل ٹائم لگا دیا گیا۔ یہاں میں نے انکی لا تعداد مشکلات حل کیں اور یورینیم افزودگی کے حوالے سے بہت ہی قیمتی تجربہ حاصل کیا۔ یہ پلانٹ سنٹری فیوج ٹیکنالوجی پر مبنی تھا۔ میں یہاں کام کر رہا تھا۔ کمپنی بہت اچھی تنخواہ دے رہی تھی۔ ہمیں گھر دیا گیا تھا گاڑی دی تھی ہم ایمسٹرڈم کے نواح میں نہایت خوبصورت گاں میں رہتے تھے اوریہاں ہماری کمپنی کے بیس پچیس گھر تھے۔ میں یہاں کام کررہا تھا اور کئی اور ملکوں سے اچھی پیشکشیں آرہی تھیں کیونکہ میں نے یہاں کئی اعلیٰ مقالے لکھے تھے جومشہور بین الاقوامی رسالوں میں شائع ہوئے۔
ترکی کی مشہور درسگاہ مڈل ایسٹ ٹیکنکل یونیورسٹی سے مجھے پروفیسر کی پوزیشن کی پیشکش کی تو میں نے بیگم سے مشورہ کر کے یہ پیشکش قبول کرلی اور ہمارا ارادہ گرمیوں کی تعطیل گزارنے کے بعد وہاں جانے کا تھا کہ ہندوستان نے دنیا کو دھوکہ دےکر 18مئی 1974ءمیں پوکھران میں کامیاب ایٹمی دھماکہ کر ڈالا۔اس کام میں بھارت کو بالواسطہ طور پر امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور فرانس کی خاموش مدد حاصل ہوئی ۔ مجھے اس دھماکہ کے بعد یہ احساس ہوگیا تھا کہ پاکستان دس سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکے گااور ہندوستان نہ صرف کشمیر پر بلکہ لاہور اور اسکے آس پاس کے علاقوں پر بھی قبضہ کرنے سے گریز نہیں کریگا۔ میں اِس صورتحال پر بہت پریشان تھا ۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ہی آپ اور آپکی اہلیہ نے باہمی مشاورت سے پاکستان آنے اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش پر پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کےلئے ایٹمی صلاحیت کے حصول کےلئے اپنے بیش بہا کام کا آغاز کیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں ! مجھے پاکستان کے بارے میں بہت فکر تھی۔ ہندوستانی دھماکہ کے بعد میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا تھا اور انہوں نے مجھے فوراً پاکستان آنے کی دعوت دی ۔میں حسب معمول کرسمس کے قریب بیگم اور بچیوں کو لےکر کراچی آگیا۔ میں آکر بھٹوصاحب سے ملا میں نے بتلایا کہ دنیا کی حساس ترین ٹیکنالوجی برائے افزودگی یورینیم پر کام کررہا ہوں۔ اس ٹیکنالوجی پر جرمنی، ہالینڈاور انگلینڈ نے 20سال ریسرچ کر کے ہالینڈ میں” المیلو“ کے مقام پرایک پائلیٹ پلانٹ لگایا جو کامیابی سے چل رہا ہے اور اِس ری ایکٹر میں ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والا چار فیصد افز ودہ یورینیم تیار کر رہا ہے لیکن میرے اندازے کےمطابق اس ٹیکنیک سے ایٹم بم بنانے کےلئے 90فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم تیار ہوسکتا ہے۔ (جاری)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان .... کچھ یادیں‘ کچھ باتیں .... (۲)
کالم نگار  |  رانا عبدالباقی
31 مئی 20120

ڈاکٹر قدیر خان: بھٹو صاحب نے منیر احمد خان کو بلایا جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین تھے لیکن افسوس کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو ڈاکٹر بتایا ہوا تھا جبکہ اُنہوں نے لاہورسے صرف بی ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری الیکٹریکل انجینئرنگ میں لی تھی اوربعد میں امر یکہ جا کر اُنہوں نے نارتھ کیرولائنا اسٹیٹ پولی ٹیکنک سے 9ماہ میں ایم ایس سی الیکٹرک انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی اور پھر آغا شاہی صاحب کی مہربانی سے نئی نئی بنیIAEAمیں چھوٹی ملازمت پر بھرتی ہوگئے تھے۔ بھٹوصاحب نے 1971ءکی شرمناک شکست کے بعد ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی کو ہٹا کر منیر کے بھائی شیخ خورشید احمد کے کہنے پر منیر احمد خان کو PAECکا چیئرمین بنا دیا تھا جو مسلسل بھٹو صاحب کو دھوکہ دیتے رہے کہ وہ تین سال میں ایٹم بم بنا دینگے۔بہر حال میں نے بھٹو صاحب کے حکم پر زبانی طور پر اُن کو اس ایٹمی ٹیکنیک کی موشگافیوں سے آگاہ کر دیا اورمشورہ دیا کہ و ہ فوراً اس موضوع پر تمام لٹریچر جمع کر کے 10-8اچھے سائنسدانوں کی ٹیم بنا کر یہ کام شروع کروا دےں اور اس کےلئے ورکشاپس قائم کرنے اور مشینری وآلات لگانے کے بارے میں بتلا دیا۔اس طرح ہم واپس چلے گئے۔ ایک سال بعد یعنی 1975ءمیں کرسمس کے موقع پر ہم پھر آئے اور بھٹو صاحب کی درخواست پرمیں کراچی سے اسلام آباد آیا تویہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ ائیر پورٹ کے قریب نہایت خستہ حال گیرا جوں میں بشر الدین محمود 12-10لڑکوں کے ساتھ اس پروجیکٹ پرکام کیا محض مذاق کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ایم ایس سی مانچسٹر سے کی تھی اور وہ بھی بجلی کی موٹروں کے کنٹرول پر۔میں نے بھٹو صاحب کو آغاشاہی صاحب اور جنرل امتیاز کی موجودگی میں صاف طور پر بتلا دیا کہ یہ لوگ متعلقہ کام کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ محض گیراجوں میں ایسے حساس کام کوآگے نہیں بڑھایا جا سکتا ۔ بھٹو صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور انہوں نے منیر احمد خان کو سخت سُست کہتے ہوئے آغا شاہی صاحب اور جنرل امتیاز سے کہا کہ وہ کوئی اہل آدمی تلاش کر یں تا کہ وہ اٹامک انرجی کا چارج سنبھال لے۔

دوسرے روز بھٹو صاحب نے مجھے بلایا اور کچھ رسمی باتیں کرکے یکدم درخواست کر دی کہ ملک کا مستقبل بہت خطرے میں ہے لہٰذا آپ واپس نہ جائیں اور یہ کام سنبھال لیں۔ میں نے کہا کہ میں اپنی بیگم سے مشاورت کرکے جواب دونگا کیونکہ وہ غیر ملکی ہیں۔ واپس سلور گرل ہوٹل راولپنڈی آکر میں نے بیگم کو یہ بات بتلائی تو وہ حیران پریشان ہوگئیں اورکہا کہ تمہارے پاس اعلیٰ ملازمت ہے اب تم پروفیسر بننے والے ہو، میرے والدین ضعیف ہیں اور دونوں بچیاں وہاں اچھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ہم یہ نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم پروگرام کےمطابق 15 جنوری1976ءکوواپس چلے جائینگے لیکن مجھے پریشان دیکھ کر وہ پھر بولیں کیا تم واقعی اپنے ملک کی اہم خدمات انجام دے سکتے ہو میں نے کہا کہ میرے علاوہ کوئی اور پاکستانی قیامت تک یہ کام نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تمہاری خواہش ہے تو پھرہم رک جاتے ہیں میں واپس جا کروالدین کو سمجھا دونگی اور بچیوں کے اسکول جا کر بتلا دونگی اور کچھ ضرورت کا سامان لے کر واپس آجانگی۔ میں نے واپس جا کر بھٹو صاحب کو بتلایا تووہ بے حد خوش ہوئے۔منیر نے ہمیں سلور گرل ہوٹل میں ٹھہرایا تھا۔ پہلے دن ہی سے اُنہوں نے مجھے تنگ کرنا شروع کیا، چھ ماہ تک مجھے تنخواہ نہ دی اور دی تو صرف تین ہزارروپیہ ماہانہ جبکہ بھٹو صاحب نے مجھے کمیشن کا ایڈوائزر لگا یا تھا مگر منیر احمد خان اور اسکے چیلے میرے پاکستان میں رک کرکام کرنے کے سخت خلاف تھے، نہ ہی ہمیں کار اور ڈرائیور دیا اور نہ ہی مناسب گھر، ایف ایٹ میں جو کہ اس وقت زیر تعمیر پسماندہ علاقہ تھا میں ایک گھر1500روپے ماہوار کرایہ پر لے دیا جبکہ وہ خود ایف سکس میں بڑے بنگلے میں رہتے تھے یہاں ٹیلیفون ، پانی وغیرہ سب قسم کی ہی کی تکلیف تھی ۔میرااندازہ یہی تھا منیر احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ نیوکلیر ٹیکنالوجی شاید پراٹھا بنانے کا طریقہ ہے کہ وہ چند گھنٹوں میں سیکھ لیں گے اور پھر میری چھٹی کرا دےنگے۔ چھ ماہ میں نے اسی حالت میں کام کیا اور جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو بھٹو صاحب کولکھ دیا کہ اس طرح یہ کام قیامت تک مکمل نہ ہوگا اور میں واپس ہالینڈ جا رہا ہوں۔ پس قیامت ٹوٹ پڑی اور دو دن میں مجھے اس پروگرام کا سربراہ بنا کر کہوٹہ میں ایک خود مختار ادارہ انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کے نام سے قائم ہوگیا اورہم نے مڑ کر نہیں دیکھا اور اتنی تیزی سے کام کیا کہ دنیا ہماری ایٹمی صلاحیت پر حیران رہ گئی۔
رانا عبدالباقی : جناب محترم کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر منیر احمد خان اوردیگر افراد جنہیں آپکی آمد سے قبل پاکستان کےلئے ایٹمی صلاحیت کے حصول کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، وہ اپنے کام کی ابتدا کےلئے محض فرانس کےساتھ ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے پر عمل درآمد کے منتظر تھے جسے امریکی دبا پر انتہائی سخت شرائط کے تابع کیا گیا اور پھر بھٹو صاحب کی حکومت کے غیر آئینی خاتمے پر جنرل ضیاءالحق دور میں امریکی دبا پر یہ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: منیراحمد خان اور اسکی ٹیم قطعی نا اہل تھی منیر نے بھٹو صاحب کو دھوکہ میں رکھا تھا کہ وہ کنوپ ری ایکٹر سے استعمال شدہ فیول”چوری“ سے نکال لے گا اور فرانس سے لئے گئے ری پروسیسنگ پلانٹ میں پلوٹونیم پیدا کر کے بم بنا لے گا آپ اس شخص کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ کنوپ اور فرانس کا پلانٹ IAEAکی نگرانی میں تھے اور وہاں کیمرے نصب تھے۔ فرانس کے پلانٹ میں24 گھنٹے فرانسیسی انجینئر موجود ہوتے تھے۔ منیراحمد خان کا خیال تھا کہ وہ تین چار سال ایسے ہی نکال جائیگا، نئی حکومت آئےگی تو بات ختم ہو جائےگی۔ فرانس سے لئے جانےوالے پلانٹ کا ایٹم بم بنانے میں رتی بھر بھی حصہ نہیں ہوسکتا تھا اور خدا کا شکرہے کہ وہ سفید ہاتھی ہمارے سر پر نہ بٹھایا گیا۔ اس معاملہ کی تفصیل مولانا کوثر نیازی کی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ تمام مغربی ملکوں کو جب 1979ءکے اواخر میں کہوٹہ کے بارے میں علم ہوا تووہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ جاہل اور نا اہل لوگ سائیکل کی چین یا سلائی کی سوئی نہیں بناسکتے ہیں اتنی مشکل اور اہم ٹیکنالوجی کوکیسے استعمال کر پائینگے۔ انہوں نے ہمارے کام کو شروع میں ایک مذاق ہی سمجھا تھا۔ باہر والوں کی بات چھوڑئیے ، سوائے بھٹو صاحب اور غلام اسحق خان کے سب ہی اس کام کو ناممکن سمجھ رہے تھے۔
رانا عبدالباقی : جناب آپ کی قیادت میںKRL پروجیکٹ کی تیاری اور اِسی اثنا میں فرانس سے ایٹمی ری پروسیسینگ پلانٹ کے معاہدے کی منسوخی کے بعد کیا امریکی واقعی یہی سمجھتے تھے کہ ڈاکٹر اے کیو خان کا ایٹمی ہدف اب ناممکنات میں ہے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں! مغربی ممالک کو یقین تھا بلکہ ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے کے خاتمے کے بعد مغربی ممالک اس بات پر مکمل یقین کر رہے تھے کہ پاکستان اب کبھی ایٹمی قوت نہیں بن سکے گا۔
رانا عبدالباقی :کیا سینٹری فیوج کے ذریعے ایٹم کی افزودگی کے حوالے سے اُس وقت امریکیوں نے واقعی آپ کی صلاحیت کو محض ایک مذاق ہی سمجھا تھا لیکن کیا یہی سینٹری فیوج اب ایران ، شمالی کوریا اور لیبیا کے حوالے سے دنیا بھر میں ز یر بحث نہیں ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں وہ یہی سمجھتے تھے لیکن سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر اب دوسرے ملک بھی کام کر رہے ہیں۔ لیبیا کے صدر قذافی نے بھی امریکیوں پر بھروسہ کیا اور ملکی مفادات سے غداری کر کے اپنا تمام جوہری سامان امریکیوں کے حوالے کر دیا اور اللہ نے اسکے بدلہ میں قذافی کو ایسے المناک عتاب سے دوچار کر دیا جس کو اسکی سات پشتیں بھگتیں گی۔ بہرحال اب تو چین اورروس بھی سنٹری فیوج ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بڑے بڑے پلانٹ چلا رہے ہیں۔ (جاری)
رانا عبدالباقی :جناب عالی ، سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کے حوالے سے جوہری افزودگی کے عمل میں انقلاب بپا کرنے پر دنیا بھر میں آپکی ذات گرامی کو شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ، کیا آپ عوام کی آگہی کےلئے اِس انقلابی ٹیکنالوجی پر کچھ روشنی ڈالنا پسند فرمائینگے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں یہی ہوا تھا ۔ جب تک میں یورپ میں بیرونی طاقتوں کےلئے کام کر رہا تھا تو میں فرشتہ تھا مگر جونہی ان کو علم ہوا کہ میں پاکستان میں سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہوں تو میں چور اور جاسوس بن گیا ۔ میری غیر حاضری میں اور میری لا علمی میں ہالینڈ میں مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ میں نے غیر قانونی طریقہ سے کچھ حساس معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ مقدمہ میں نے جیت لیا تھا اور ہمارے محترم ایس ایم ظفر صاحب نے دو ڈچ وکلاءکی مدد سے اس الزام کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور مجھے با عزت بری کیا گیا تھا ۔ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی موجودہ دورکی بہترین ٹیکنالوجی ہے جو یورینیم کو افزودہ کرنے میں استعمال ہوتی ہے چند ملکوں نے اس میں مہارت حاصل کی ہے جس میں پاکستان شامل ہے۔2ارب ڈالرسے ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ نے اس میں مہارت حاصل کی تھی۔ اس کو مختصراً بیان کرنا مشکل ہے بس یہ سمجھ لیجئے جس طرح دودھ میں سے مکھن نکالا جاتا ہے اسی طرح یورینیم میں سے جس میں صرف0.7فیصد مفیدU-235ہوتا ہے اور باقی U-238ہوتا ہے۔ سنٹری فیوج مشین میں ایک ٹیوب ایک باہر کے خول یعنی Casingمیں ہوتی ہے دونوں کے درمیان خلا پیدا کیا جاتا ہے اندروالی ٹیوب تقریباً65ہزار چکر فی منٹ پر گھومتی ہے اس میں یورینیم ہیک فلور ائڈ گیس داخل کی جاتی ہے اور چونکہ یورینیم کے دونوں آئسو ٹوپس کے اوزان میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ U-238 یعنی بھاری ہوتاہے اور U-235 ہلکا ہوتا ہے اس طرح بھاری آئسو ٹوپس ٹیوب کی دیوار کے پاس چلا جاتا ہے اور ہلکا U-235ٹیوب کے درمیانی حصہ میں آجاتا ہے اس طرح بہت ہی پیچیدہ طریقہ سے یہ گیس اگلے ٹیوب میں جاتی ہے اور یہ سلسلہ تقریباً15مرحلوں میں تین فیصد افزودہ U-235تیار کرتا ہے اور اسی طرح اور زیادہ افزودہ کرنا ہو تو پھر دوسرے 15مرحلے والے سسٹم میں یہ گیس ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ U-235کی افزودگی 90فیصد ہوجاتی ہے اور U-238کی افزودگی98.3فیصد سے گھٹ کر 0.25 فیصد رہ جاتی ہے۔ یہ کام بے حد مشکل ہے مگر اس میں بجلی کا خرچ کم ہوتا ہے اور افزودگی کے دوسرے طریقوں کے مقابلہ میں بہت ہی اچھا ہے۔ U-238 ایٹم بم میںU-235کے چاروں طرف لگا کر استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرے بہت وزنی ہونے اور ٹکرا کر پھٹنے اور آگ پیدا کرنے کی وجہ ٹینک شکن راکٹ میں استعمال ہوتا ہے ۔
رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی صلاحیت غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی لیکن 1974ءکے بھارتی ایٹمی دھماکوں پر نہ تو دنیا نے اِسے ہندو بم سے تشبیہ دی اور نہ ہی مغرب کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی کنونشن کی خلاف ورزی کے حوالے سے کسی قرار واقعی ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کےلئے آپ کی قیادت میںکام شروع کیا تو اِسے نہ صرف اسلامی بم قرار دیا گیا بلکہ امریکہ اور اسرائیل نے اِسے نادیدہ خطرے سے تعبیر کیا ، مغرب کے قول و فعل میں اِس دوعملی کی کیا وجوہات ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:یہ بالکل صحیح ہے کہ بھارت نے امریکہ اور کینیڈا کو دھوکہ دے کر ان کے دیئے ہوئے ری ایکٹر اور ہیوی واٹر کو استعمال کر کے پلوٹونیم بنا کر ایٹم بم میں استعمال کیا تھا۔ ہمارے خلاف مغربی اور ہندو قومیں اس لئے صف آراءہوئی ہیں کیونکہ ماضی میں ان کو مسلمانوں کی تہذیب و تمدن نے روند ڈالا تھا۔صلیبی جنگیں اسی کی کڑی تھیں اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اسی گھٹیا نفسیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ہم سے ان کی یہ دشمنی قیامت تک جاری رہے گی کیونکہ وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ ہمارے مذہب اورتہذیب و تمدن نے ان کی تہذیبی جڑوں کو ہلا دیا تھااور وہ لوگ یہ بات آج تک نہیں بھولے ہیں۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ بتانا چاہیں گے کہ 80کی دہائی میں بھارتی صحافی کلدیپ نائیر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کے پس پردہ اثرات کے تحت کام کرتے ہیں کی مشاہد حسین سید کے ہمراہ آپ سے ملاقات کی کیا اہمیت تھی اور کیا آپ اِس ملاقات کے ذریعے ہندوستان پر واضح کرنا چاہتے کہ Hand off from Pakistan\\\" \\\" کیونکہ اُس وقت پاکستان ایک خاموش ایٹمی طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جس کا کھلم کھلا اظہار چاغی ایٹمی دھماکوں کی شکل میں ممکن ہوا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں وہ چالاک ہندو صحافی مجھ سے الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے تھے، میں نے صاف صاف کہ دیا کہ یہ 1965ءیا 1971ءکی بات نہیں اب اگرہندوستان نے جارحیت کی تو ہم بھی اُسکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔اس نے اس ذومعنی بات کا مطلب سمجھ لیا اور وہ تمام الفاظ میرے منہ میں ڈال دیئے جو میں نے نہیں کہے تھے تاکہ مغربی ممالک پریشان ہو جائیں اور ہماری امداد بند کر دیں۔ اس نے یہ انٹرویو ایک ہندو کال گرل پامیلابورڈیس سے نشر کرایا جو اس وقت سندھی آبزرور کے ایڈیٹر سے خصوصی تعلق رکھتی تھی۔ پھر بعد میں جنرل ضیاءالحق نے ہندوستانی اخبار کو انٹرویو میں ایسی ہی بات کہہ دی جس نے راجیو گاندھی کو بھی ہلا دیا تھا۔ اس وقت سے ہندوستان کی ہمارے خلاف کسی جارحیت کی جرا

¾ت نہیںہوئی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ آپ نے محترم مجید نظامی کے ہمراہ رائے ونڈ میںمیاں نواز شریف کے والد سے ملاقات کر کے جنرل پرویز مشرف کی بطور چیف آف سٹاف تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ، اور کیا یہ بھی درست ہے کہ چاغی دھماکوں کے تاریخی موقع پر آپ نے جنرل پرویز مشرف کو شراب پی کر آنے پر ملامت کی تھی اور کیا اِس کا بدلہ پرویز مشرف نے وزارت دینے کی آڑ میں خان ریسرچ لیبارٹریز سے آپکی ریٹائرمنٹ اور نائین الیون کے بعد آپ کی نظربندی کی شکل میں دیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں! یہ بالکل صحیح ہے کہ مجید نظامی صاحب اور میں رائے ونڈ میں میاں محمد شریف(مرحوم) سے ملے تھے اور میں نے صاف صاف بات کی تھی اور میاں شریف صاحب نے نواز شریف سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا۔ وہ بولے کہ چوہدری نثار نے مشورہ دیا تھا۔ جبکہ پینے پلانے والی بات چاغی کے دھماکوں سے متعلقہ نہیں ہے۔ اِس سے قبل مشرف منگلہ میں تعینات تھاجب تو وہ چاغی میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے ، و ہ پینے پلانے والی بات 6اپریل 1998ءکی ہے جب ہم ٹِلّہ رینج سے غوری میزائل داغ رہے تھے۔ یہ شخص (مشرف) نہایت کم عقل، جھوٹا اور سخت کینہ پرور ہے جو عوام کے سامنے اور پوری دنیا کے سامنے جھوٹ بولتا رہا ہے اور تاثر یہ دیتا رہا ہے کہ بڑا بہادر کمانڈوہے مگردر حقیقت بے حد بزدل ہے اس نے کسی جنگ میں ایک گولی نہیں چلائی۔
رانا عبدالباقی :صدر پرویز مشرف نے 2006ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتا ب In The Line Of Fire\\\" \\\" میں تذکرہ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اُنہوں نے آپ کو KRL سے علیحدہ کر نے کا تہیہ کر لیا تھا جبکہ 2001ءمیں آپ کو ترقی دیکر نہ صرف وزیر مملکت بنا دیا گیا بلکہ27 مارچ 2001ءمیں آپ کے اعزاز میں ایک سرکاری ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے آپ کی تعریف میں جو کچھ کہا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے ، میں اُن کی طویل تقریر سے صرف دوجملوں پیش کرنے کی اجازت چاہونگا جس میں اُنہوں نے آپ کی شان میں فرمایا تھا کہ ”آخر کار اللہ نے قوم کی دعائیں سن لیں ، ہماری صورتحال پر رحم آگیا ، ایک معجزہ رونما ہوا اور پردہ غیب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل نابغہ کا ظہور ہوا اور یہ نابغہ روزگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ، ایسے نابغہ جس نے تن تنہا قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کر دیا، جناب ڈاکٹر صاحب مجھے رسمی طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانے کی اجازت دیجئے کہ قوم کو آپ نے جو کچھ دیا ہے اُس کےلئے یہ قوم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی ہمیشہ آپ کی ممنونِ احسان رہے گی ،آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور ہماری آئندہ نسلوں کے مبداءفیضان ہیں ، کوئی شخص بھی آپ سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتا کیونکہ تاریخ میں آپ کے مقام کا تعین ہوچکا ہے“ ۔ چنانچہ مندرجہ بالا تناظر میں یہ سوال قائم کرنا چاہوں گا کہ کیا نائین الیون کے بعد سے 2006ءتک پرویز مشرف مکمل طور پر CIA کی لائین پکڑ چکے تھے وگرنہ بطور چیف ، قومی ایٹمی ادارے کے سربراہ ہونے کے باوجود پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلقہ تفصیلات کو کلی طور پر بیرونی دنیا کے سامنے expose کرنے کا کیا مقصد تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی آپ خود ہی اس جھوٹے شخص کے تحریری بیانات دیکھ لیجئے27مارچ 2001ءمیں وہ میری شان میں قصیدے پڑھ رہاتھا اور زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا ۔ وہ تقریر میں نے تو اُسے لکھ کر نہیں دی تھی اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ میں نے اس کی تقریر کا دو الفاظ میں بھی جواب نہیں دیا تھا ایسی ہی کئی اور باتیں تھیں جن کی وجہ سے وہ میرا جانی دشمن بن گیا ۔ مشرف نے 2001ءمیں ہی 9/11کے بعد امریکی غلامی کر لی تھی اور امریکن اور برٹش تو میرے خون کے پیاسے تھے ہی مشرف نے امریکی ایجنڈے پر کام شروع کر دیااور وہ کام جو پوری مغربی دنیا ہمارے خلاف نہ کر پائی تھی وہ اس بزدل ڈکٹیٹر نے اُن کے لئے کر دیا۔ اس نے اپنی کتاب میں جو باتیں نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں لکھی ہیں وہ ملک سے غداری کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس پر اس کو پھانسی یا عمر قید کی سزا ملنی چاہئے۔

رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ مشرف اپنی ذاتی کمزوریوں کے سبب بیرونی دبا برداشت نہ کر سکے اور جوہری پھیلا کی تمام ذمہ داری کمال عیاری سے آپ کے سر تھوپنے کےلئے پاکستان کی سلامتی کے نام پر آپ سے سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دلوایا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جب آپ پرویز مشرف کے دبا میں نہیں آئے تو مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کے ذریعے خدا اور رسول کے واسطے دیکر آپ کو پاکستان کی سلامتی کی خاطر سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دینے پر مجبور کیا گیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: مشرف بزدل اور ڈرپوک تھا اور مجھ سے ذاتی دشمنی تھی اس لئے نہ صرف مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیابلکہ ہمارے پروگرام سے متعلق حساس قسم کا سامان پہنچانے والے ذرائع کو بھی اس نے بہت نقصان پہنچایا۔میں کسی قسم کا بیان دینے کو تیار نہیں تھا مگر میرے عزیز اور محترم دوستوں چوہدری شجاعت حسین اور ایس ایم ظفر صاحب نے ملک کی سلامتی کی خاطر دوستانہ مشورہ دیا کہ میں بیان پڑھ دوں اس بیان میں لا تعداد لغویات تھیں مگر ملک کی خاطر میں نے یہ بیان پڑھ دیا ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نہ ہی NPT اور نہ ہی NSGپر دستخط کئے تھے اور ہم کسی کو کسی قسم کی معلومات یا کسی کے خلاف کارروائی کرنے کے پابند نہ تھے۔ اس جاہل نے اپنے آپ کو شاہ (امریکہ) کا وفادار ثابت کرنے کےلئے مجھ سے بیان دلوا کر پاکستان کو مجرم بنا دیا۔ میں تو ایک شخص واحد تھا قربانی کے جذبے سے ہی پاکستان آیا تھا، جلدیا بدیر خالق حقیقی سے جا ملتا اور پاکستان پر آنچ تک نہ آتی۔ مشرف کو جان لینا چاہئیے تھا کہ ہم 20سال تک بم بنانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔وہ الزام لگاتے رہتے اور ہم یہاں انکار کرتے رہتے مگر یہ بات ایک کم تر تعلیم رکھنے والے شخص کے دماغ میں کس طرح سماسکتی تھی۔ میں نے بہر حال اس لکھے ہوئے کاغذ میں ایک ترمیم اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے ضرور کرائی تھی کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ نیک نیتی سے کیا ہے۔ ایک ا ور بات یہ جو جوہری ٹیکنالوجی ہے وہ کسی کے باپ کی ملکیت نہیں تھی۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال کی محنت و مشقت سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی تھی اور میں نے یہ ٹیکنالوجی کسی کو بیچی نہیں تھی بلکہ اپنے وطن کو بغیر کوئی معاوضہ لئے دی تھی ، اِس سے کسی کو سروکار نہیں ہونا چاہئیے کہ میں یہ ٹیکنالوجی کسی کو دوں یا نہ دوں ۔ میں نے اپنے خاندان کی زندگی ، اپنی زندگی اور مستقبل کو دا پر لگا کر یہ چیز پاکستان کو بلا معاوضہ دی تھی جس کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں دو ارب ڈالر تھی اور پاکستان کو یہ چیز اتنی قیمت میں بھی کوئی نہ دیتا میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ، اپنے وطن کی مٹی سے وفا کی ہے۔مشرف نے اُسی روز پریس کانفرنس کی تھی کہ ڈاکٹر خان ایک آزاد شہری کی حیثیت سے با عزت زندگی گزار سکتے ہیں ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہوگی صرف ملک سے باہر جانے کے لئے حکومت سے این او سی لینا ہوگا اس نے مجھ سے خود بھی وعدہ کیا تھاکہ آپ کو بہت جلد ہی پوری طرح بحال کر دینگے لیکن اِس کے برعکس ہوا، اور دوسرے دن ہی مجھے نظر بند کر دیا گیا۔ میری بچی کاکمپیوٹر اٹھا کر لے گئے۔ ٹیلیفون لائن کاٹ دی اور ہمارے موبائل فون چھین لئے گئے ، میری غیر ملکی اہلیہ یہی سوچتی تھی کہ کیا بے لوث خدمت کا یہی صلہ ہے۔ چند دن بعد جنرل قدوائی اور ان کی بیگم ہم سے ملنے آئے اور وعدہ کیا کہ دو تین مہینے میں تمام پابندیاں ختم کر دی جائینگی۔ اس بات کو اب سات برس سے زیادہ ہوگئے اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ابھی تک گھر کے باہر اور آس پاس بے شمار لوگ موجود ہوتے ہیں اور آنے جانے والوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، سیکیورٹی ضرور ہونی چاہئیے لیکن مجھے قیدی بنا کر نہیں رکھنا چاہئیے تھا۔ یہی نہیں بلکہ ماضی میں ایک روز مجھے اور میری اہلیہ کو جبراً بنی گالہ لے جایا گیا اور آٹھ سفید پوشوں نے ہمارے پورے گھرکو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ بستر، الماری میں کپڑے، چند آلات، بنک کی فائلیں ، تمام بندوقیں سب لے گئے اور بہن اور بھائی تک پر آکر ملنے کےلئے صرف دو دن دیئے جاتے تھے۔ میری بیٹی کو جو لندن میں رہ رہی تھی ایک سال تک واپس نہیں آنے دیا گیا۔ اخبارات میں میری پوری طرح کردار کشی کی گئی اور ہر قسم کے جاہلانہ الزامات لگائے گئے۔ہمارے گھر میں ہمارے بیڈ روم، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، بیٹی کے روم اور نواسی کے روم میں ہر جگہ سننے والے آلات نصب کر دیئے گئے ۔ بیڈ رومز میں بستر کے ساتھ یہ آلات لگائے گئے تھے یہ جاہل شخص (مشرف) اِس زعم میں تھا کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہوگا۔ میں نے چند دن میں ہی تمام آلات کو تلاش کر لیا تھا اور اگرہمیں کچھ ذاتی بات کرنی ہوتی تھی باہر لان پر جاکر کر لیتے تھے۔ یہ تمام بدمعاشیاں اس وقت ختم ہوئیں جب لاہور ہائی کورٹ کے جج اعجاز احمد چوہدری صاحب نے مجھے ایک آزاد شہری کی حیثیت سے رہنے اور لوگوں سے ملنے اور ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت دی ، میں اُن کا شکر گزار ہوں ۔
رانا عبدالباقی : تو گویا، سرکاری چینل پر پڑھا جانے والا بیان نہ تو آپ کا لکھا ہوا تھا اور نہ ہی آپکے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا تھا بلکہ یہ بیان سرکاری ٹیلی ویژن پر پڑھنے کیلئے مبینہ طور پر آپ کو ملک کے بہترین مفاد میں دیا گیا تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں ایسا ہی ہے۔ یہ بیانSPDنے تیار کیا تھا اور شاہ (امریکہ) سے زیادہ وفاداری ثابت کرنے کےلئے اس میں مجھے ملوث کرنے کے لئے اس قدر جھوٹ لکھا گیاکہ پوری دنیا کو فوراً ہی علم ہوگیا کہ یہ ایک مفروضہ بیان ہے جسے میرے ہاتھ میں پڑھنے کےلئے تھما دیا گیا تھا۔ میں نے صرف اور صرف ملک کے بہترین مفاد میں یہ بیان پڑھ دیا ورنہ ٹیکنالوجی نہ تو میں نے اُن کو بیچی تھی اور نہ ہی اِس کے بدلے کوئی ایک روپیہ معاوضہ لیا تھا لیکن یہ ٹیکنالوجی بہرحال سینکڑوں سائنسدانوں کی شب وروز محنت کا نتیجہ تھی اور میں خود بھی اِن میں شامل تھا اور اِن ملکوں نے یہ ٹیکنالوجی 2ارب ڈالر خرچ کر کے حاصل کی تھی۔
رانا عبدالباقی : جناب عالی، مشرف کی کتاب میں جوہری پھیلا کے حوالے سے چیپٹر 27میں دی گئی متضاد معلومات پڑھ کر عام قاری کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مشرف حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں ۔ 2006ءمیں لکھی کتاب میں 1999ءسے ہی آپ کے کردار پر شبہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن مشرف شاید لکھتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ مارچ 2001ءتک تو وہ آپ کی تعریفوں کے پُل ہی باندھتے رہے اور یہ سلسلہ 2003ءتک جاری رہا جب صدر بش کے کہنے پر اُن کی ملاقات ایٹمی پھیلا کے موضوع پر امریکی سی آئی اے چیف سے ہوئی ۔اپنی کتاب میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سی آئی اے چیف نے اُنہیں سینٹری فیوج کے نقشے دکھاتے ہوئے آپ پر کسی الزام کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے جو کچھ کہا وہ حرف بحرف درست ہے آپ مشرف کی تحریروں اور بیانات میں تضاد دیکھ لیجئے، کہا جاتا ہے جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے لیکن میں کہونگا کہ جھوٹے کا دماغ نہیں ہوتا وہ خود بھول جاتا ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا۔ اس نے خود ہی لکھا ہے کہ نہ ہی سی آئی اے کے سربراہ نے میرا نام لیا تھا اور نہ ہی کسی ڈرائنگ پر میرا یا کے آر ایل کا نام تھا مگر اس کند ذہن کو جو کچھوے کے منہ اور دم میں تمیز نہیں کرسکتا، کہتا ہے کہ میں نے ڈرائنگ کو دیکھ کر فوراً ہی پہچان لیاکہ وہ P-1کی ہےں۔حالانکہ P-1 توہم نے 1982ءمیں بنانا بند کر دی تھیں اور P-IIلگا دی تھیں۔1998ءمیں چیف بننے سے پہلے مشرف کو کہوٹہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایران اور لیبیا کے حوالے صرف اتنا کہونگا کہ چونکہ یورپ کے چند سپلائرز وہی تھے جنہوں نے ہمیں سامان مہیا کیا اور وہ ہی ایران اور لیبیا کو سامان بیچ رہے تھے چنانچہ امریکیوں نے بجائے اُن کے مجھے قربانی کا بکرا بنانا آسان سمجھا کیونکہ یہاں اُن کے احکام کی تابعداری کے لئے اُنہیں ایک ڈکٹیٹر مل گیا تھا۔
رانا عبدالباقی :مشرف جانتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت مغرب کے ایٹمی پُرزوں کے سپلائرز کی مرہون منّت تھی جبکہ قرائین یہی کہتے ہیں کہ مبینہ ایٹمی پھیلا میں ملوث دیگر ممالک بشمول ایران ، شمال کوریا اور لیبیا بھی بظاہر اِنہی مغربی ملکوں کے سپلائرز کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے لیکن اِن میں سے کوئی بھی ملک ابھی تک ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ مشرف کی کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی بھارتی میڈیا میں مشرف کی کتاب کی تمام تر معلومات اہم خبر کے طور پر نشر کر دی گئی تھی ، اِسے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بات سچ ہے کہ شمالی کوریا کے سوا باقی دو ممالک ان ہی مغربی تاجروں سے تمام سامان خرید رہے تھے۔مشرف نے اپنی کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں اگر کسی اور ملک میںکوئی شخص ایسا لکھتا تو اُسے پھانسی مل گئی ہوتی مگر ہمارے ملک میں غدار پھلتے پھولتے ہیں، بغاوت کرتے ہیں ،حکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔
رانا عبدالباقی : پرویز مشرف صدر مملکت کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد اِس اَمر کے پابند تھے کہ بطور صدر اُن کے نوٹس میں آنے والی معلومات کو وہ براہ راست یا بلواسطہ طور پر سرکاری ذمہ داری نبھانے کے سوا کسی پر آشکار نہیں کریں گے تو کیا صدر مملکت کے طور پر بھاری معاوضے کے حصول پر اِس کتاب میں خفیہ جوہری معلومات کا تذکرہ اُن کے حساس عہدے کے منافی نہیں تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے اس نے کسی سے اجازت طلب نہیں کی نہ صرف تمام راز امریکہ اور دوسرے ممالک کو دے دیئے بلکہ سنٹری فیوج مشین کوبھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے حوالے کر دی۔ اگر امریکن اس سے کہتے ہیں اُن کے سامنے ننگا ناچ کر دکھائے تو وہ ایسا بھی ضرور کرتا، کیونکہ مشرف ہر حال میں اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر کے طور منوانے کےلئے بیتاب تھا۔
رانا عبدالباقی :جناب عالی ایک سابق برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن جو اب امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں نے آر جعفری سمتھ کے مضمون میں شمالی کوریا کے جون بیونگ کے خط کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے لیکن چونکہ اِس دوران آپ نظر بند تھے تو کیا سائمن نے یہ خط آپ کی نظر بندی کے دوران آپ سے حاصل کیا تھا اور کیا نظر بندی کے دوران مشرف حکومت نے ایٹمی پھیلا سے متعلق کسی بیرونی ایجنسی کو آپ سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:نظر بندی کے دوران مجھ سے کسی بیرونی قوت یا ایجنسی نے بات چیت نہیں کی۔ مشرف ڈرتا تھا کہ اگر اس نے کسی کوملنے کی اجازت دی تو میں ہر چیز کھل کے بتلا دونگا ۔جو خط میں نے اپنی بیگم کو دیا تھا اس کی کاپی ازراہ حفاظت بڑی بیٹی کو دیدی تھی جب وہ واپس لندن جا رہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط نکال لیا اور اس نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مشرف نے اپنے کارندوں کے ذریعہ وہ خط امریکہ کو دیا۔ امریکی حکومت ایسی چیزیں مناسب وقت پر سی آئی اے کے ذریعہ اپنے معتبر اخبار نویس یا صحافی کو دے کر افشاں (یعنی لیک) کر دیتے ہیں یہاں بھی یہی ہوا ہے۔
رانا عبدالباقی :اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن سے نہ توآپ کی ملاقات ہوئی اور نہ ہی آپ نے یہ خط اس کے حوالے کیا تھا تو پھر قومی مفادات کے بر خلاف یہ کہانی کس کی تیار کر دہ تھی اور کیا سائمن ہنڈرسن کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ 1980ءسے بذریعہ خط و کتابت آپ کے ساتھ رابطے میں تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی نہیں میری سائمن ہنڈرسن سے 1997ءکے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اِس سے قبل بعض اوقات وہ پاکستان کے بارے میں غیر ممالک میں شائع ہونے والے الزامات کے بارے میں مجھ سے پوچھتے تھے اور میں اس کی تردید کر دیا کرتا تھا۔ وہ ایک اچھے صحافی ہیں اور عموماً پاکستان کے لئے اچھے مضامین لکھتے رہے ہیں جس خط کا حوالہ دیا گیا ہے وہ میں نے اپنی بیگم کو لکھ کر د یا تھاانہوں نے احتیاطاً بڑی بیٹی کو دیدیا تھا کہ وہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیں لیکن جب وہ لندن جارہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط میری بیٹی دینا کے سوٹ کیس سے نکال لیا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب اور پریس کانفرنس میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ خط اسی نے سی آئی اے کو دیا اور وہاں سے انہوں نے اس کو افشاں کر دیا کہ عوام کی نگاہ میں میری دقعت اور عزت کم ہو جائے۔ جو شخص حساس سنٹری فیوج مشینیں امریکیوں کو دے سکتا ہے اس کے مقابلے میں اس خط کی کیا حیثیت تھی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں آپ کے خلاف ہرزہ سرائی پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے 2007ءمیں آپ کی مالی خستہ حالی کے پیش نظر پنشن میں مناسب اضافہ کیا تھا اور کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایٹمی حوالے سے اُن کی کتاب میں کیا جانے والا تذکرہ ماضی میں آپ کی جانب سے جنرل مشرف کو چیف آف سٹاف بنانے پرآپ کی میاں شریف مرحوم سے ملاقات کا شاخسانہ تھا اور محض ایک انتقامی کاروائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں یہ بالکل سچ ہے ۔ اُس نے بے بنیادالزامات لگائے تھے اور اس کے کارندے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کم از کم دس کروڑ ڈالر تو ہونگے لیکن کچھ عرصہ بعد حقائق سامنے آگئے کہ ہم بہت مشکل سے گزارہ کر رہے تھے اور کراچی سے میری بہن اور بڑے بھائی ہر مہینہ اگرچہ کچھ رقم میری اہلیہ کو دے جاتے تھے تو گزارا ہوتا تھا ۔ پھر مشرف نے اسپیشل پنشن مقرر کردی کیونکہ 25 برس تک ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد میری پنشن صرف4467روپے تھی یہ صلہ دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت فراہم کرنے اور اپنی خاندانی زندگی کو اور مغرب میں اعلیٰ پیمانے کی زندگی گزارنے کو تباہ کرنے کی پاداش میں ملا تھا مشرف کو تو مجھ سے خدائی بغض تھا بہت سی باتیں تھیں دوسرے اس کے آگے لیٹ جاتے تھے اور میں منہ پر اسکو اچھا سخت جواب دیدیتا تھا۔ یہ شخص میری گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا اور چیف بننے کے بعد احساس کمتری کا شکار تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا ماضی میں آپ کے خلاف ایٹمی دستاویزات کے غلط استعمال پر یورپ میں کوئی مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور اِس مقدمے میں آپ کو بری کئے جانے کے باوجود آپ کے خلاف مغربی پروپیگنڈے میں کمی کیوں نہیں آئی جبکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی دھماکوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ نہ ہونے کے برابر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں 1983ءمیں ہالینڈمیں میری غیر موجودگی میں جھوٹا الزام لگا کرمقدمہ چلا کر 4سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن میں نے ایس ایم ظفر صاحب اور دوڈچ و کیلوں کی معاونت کے ساتھ اپیل کر دی تھی اور مقدمہ جیت لیا تھا اور خود پبلک پراسیکیوٹر نے لکھ کر دیا کہ انہیں کبھی بھی شک نہ تھا کہ میں نے کوئی جاسوسی کی ہے مگر چھوٹی عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ سنا دیا تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پوکھران بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ایٹمی دھماکے کی شدت جس نے چاغی کی پہاڑیوں کو سلگنے پر مجبور کر دیا ، دنیا بھر میں اب تک ہونے والے ایٹمی تجرباتی دھماکوں سے کہیں زیادہ قوت کی حامل تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: نہیں یہ بات نہیں ہے۔ اس قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت کم و بیش برابر ہی ہوتی ہے پانچ فیصد فرق کے اندر ہی اندر ان کی قوت میں فرق ہوتا ہے۔
رانا عبدالباقی :آپ کی نظر بندی کے دوران آپ کے خلاف لگنے والے ایٹمی پھیلا کے الزامات پر آپ کی صاحبزادی نے مغربی پریس کی غلط فہمیاں دور کرنے کےلئے لندن میں قابل ذکر کردار ادا کیا تھا ، کیا آپ اِس کے بارے میں کہنا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میری بڑی بیٹی ہی نہیں بلکہ میرے تمام بہن بھائیوں نے اور میری اہلیہ نے نہایت صبر و ہمت سے ان تمام تکالیف کا حوصلہ سے مقابلہ کیا اور وہ میرے لئے بہت ہی مفید و کار آمد بات تھی کہ مجھے کبھی پریشانی کا احساس نہیں ہوا۔ مجھے علم تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جو کچھ حکومت کہتی رہی اس پر ہی عمل کیا۔ بڑی بیٹی چونکہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہے اور نہ صرف بہادر ہے بلکہ بہت اچھی لکھنے اور بولنے والی ہے اس نے ہر جگہ میرے خلاف ہونے والی بد معاشی کا منہ توڑ جواب دیا۔
رانا عبدالباقی :آپ نے یورپ کی آزاد فضاں کو چھوڑ کر پاکستان تشریف لا کرملکی سلامتی کےلئے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ، آپ کی اہلیہ اِس دوران انتہائی وفاداری سے آپ کا ساتھ دیتی رہی ، کیا آپ سمجھتے ہیں مغربی سماج میں پرورش پانے کے باوجود اُن کا یہ تاریخی کردار اعلیٰ مشرقی روایات سے بھی بڑھ کر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بالکل ٹھیک ہے میری بیگم نہایت بہادر اور وطن پرست ہیں میرا خیال ہے کہ کوئی پاکستانی بیگم اتنا پریشر برداشت نہیں کر پاتی۔ اُن کی ہمت اور مدد کی وجہ سے ہی میں اتنا بڑا کام کر پایا۔ کسی زمانہ میں ہمارے ملحقہ گیسٹ ہاس میں ہم غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کی میٹنگز کیا کرتے تھے اور غلام اسحق خان صاحب میرے گھر آکر میری بیگم سے ملتے تھے اور اُس کاشکریہ ادا کرتے تھے حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر اُن کی مدد میرے شامل حال نہ ہوتی تو کہوٹہ کاکوئی نام بھی نہیں جانتا ۔آج کے سینہ پھلا کرچلنے والے اور کرپشن کے پیسے سے عیاشی کرنے والے پھر سے ہندوں کی غلامی کر رہے ہوتے۔ میں یہ ضرور عرض کرونگا کہوٹہ پروجیکٹ کی تکمیل میں میری ٹیم کے تمام رفقائے کار اور اُن کی بیگمات نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ہم سب نے اپنی خاندانی زندگی کو وطن کی بے لوث خدمت کے اس کام پرقربان کیاہے۔
رانا عبدالباقی :لوگ یہی کہتے ہیں اور ناچیز نے بھی آپ کےساتھ چند ملاقاتوں میں یہی محسوس کیا ہے کہ آپ پاکستانی ایٹم بم کے خالق ہونے کے باوجود انتہائی درد مند دل رکھنے والے انسان ہیںاور غریب و لا چار لوگوں کی مدد کےلئے دامے درمے سخنے مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، سفید پوش غریبوں کی مدد کےلئے آپ کی غیر معمولی دلچسپی کے پیچھے کونسا جذبہ متحرک ہے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:ہمارا خاندان بھوپال سے ہے اور وہاں بھر پور جنگلی شکار کا علاقہ ہے لیکن بے حد نرم دل تھے میرے والدین( اللہ بخشے۔آمین) بے حد نرم دل تھے ہمیں کبھی غلیل تک استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہی حال میری بیگم، بچیوں اور بہن بھائی کا ہے ہم ہمیشہ پرندوں ، بلیوں اور بندروں وغیرہ کو غذا دیتے ہیں اور اسلام آباد میں بھی ہمارے گھر 20-15بندر روز آتے ہیں اور ہاتھ سے پھل اور ڈبل روٹی لے کر کھاتے ہیں۔جوہری بم کا خالق ہونا کسی ظلم کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ میں وضاحت کرنا چاہوںگا کہ ہم نے ایٹم بم کسی کو مارنے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کی جان بچانے اور ملک کی سلامتی کی حفاظت کےلئے بنایا گیا ہے۔ بھارتی ایٹمی دھماکے ضرور خطے میں جوہری بالا دستی کے حوالے سے کئے گئے تھے لیکن چاغی کے دھماکے خطے میں پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کےلئے کئے گئے ہیں۔ سوائے مشرف کی کارگل کی بدمعاشی کے گذشتہ 40سال میں ہماری ہندوستان سے کوئی جنگ نہیں ہوئی اور انشاءاللہ پاکستان کے جوہری قوت بننے کے بعدکبھی نہیں ہوگی کیونکہ اب ہندوستان بھی مانتا ہے کہ جنگ سے اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لہذا، چاغی دھماکے امن کے ہتھیار کی دلیل ہیں ۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ اپنے والدین کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گے بل خصوص آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ کے کردار کے بارے میں آپ کے پرستار ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی صلاحیت کے حامل شخص کی بنیادی تربیت کس طرح ہوئی؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میرے والدین بہت ہی نرم، مہربان اور نہایت شفقت کرنے والے انسان تھے ۔ والد نے زندگی
میں کبھی ڈانٹا بھی نہیں مگروالدہ نے ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا کہ ہم وقت پر اسکول جائیں، رات کو روزانہ پڑھیں، گھر کا کام کریںاور کسی غلط صحبت میں نہ بیٹھیں۔ یہ اُن کی نگرانی کااثر رہا کہ ہم سب تعلیم حاصل کر سکے۔ والد اور والدہ ہمیشہ محلہ کی بچیوں کو قرآن اور اسکول کی تعلیم مفت دیتے تھے اور قرآن شریف ختم کرنے اور امتحان میں پاس ہونے پر جوڑے اور نقد انعام دیتے تھے۔ میرے والدین بے حدہردلعزیز تھے۔
رانا عبدالباقی :سر اللہ آپ کوبھی بہت خوش رکھے آپ کو صحت کامل سے نوازے ۔ آپ فخر پاکستان ہیں ،آپ محسن پاکستان ہیں ، آپ قوم کے ہیرو ہیں، میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اِس طویل انٹرویو کےلئے وقت دیا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ۔


ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں
کالم نگار  |  رانا عبدالباقی
04 جون 20121


راناعبدالباقی:جناب عالی،سینٹری فیوج ٹیکنالوجی کے حوالے سے جوہری افزودگی کے عمل میں انقلاب بپا کرنے پر دنیا بھر میں آپ کی ذات گرامی کو شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ، کیا آپ عوام کی آگہی کےلئے اِس انقلابی ٹیکنالوجی پر کچھ روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:جی ہاں یہی ہوا تھا ۔ جب تک میں یورپ میں بیرونی طاقتوں کےلئے کام کر رہا تھا تو میں فرشتہ تھا مگر جونہی ان کو علم ہوا کہ میں پاکستان میں سینٹری فیوج ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہوں تو میں چور اور جاسوس بن گیا ۔ میری غیر حاضری میں اور میری لا علمی میں ہالینڈ میں مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ میں نے غیر قانونی طریقہ سے کچھ حساس معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ مقدمہ میں نے جیت لیا تھا اور ہمارے محترم ایس ایم ظفر صاحب نے دو ڈچ وکلاءکی مدد سے اس الزام کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور مجھے با عزت بری کیا گیا تھا ۔ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی موجودہ دورکی بہترین ٹیکنالوجی ہے جو یورینیم کو افزودہ کرنے میں استعمال ہوتی ہے چند ملکوں نے اس میں مہارت حاصل کی ہے جس میں پاکستان شامل ہے۔2ارب ڈالرسے ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ نے اس میں مہارت حاصل کی تھی۔ اس کو مختصراً بیان کرنا مشکل ہے بس یہ سمجھ لیجئے جس طرح دودھ میں سے مکھن نکالا جاتا ہے اسی طرح یورینیم میں سے جس میں صرف0.7فیصد مفیدU-235ہوتا ہے اور باقی U-238ہوتا ہے۔ سنٹری فیوج مشین میں ایک ٹیوب ایک باہر کے خول یعنیCasingمیں ہوتی ہے دونوں کے درمیان خلا پیدا کیا جاتا ہے اندروالی ٹیوب تقریباً65ہزار چکر فی منٹ پر گھومتی ہے اس میں یورینیم ہیک فلور ائڈ گیس داخل کی جاتی ہے اور چونکہ یورینیم کے دونوں آئسو ٹوپس کے اوزان میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ U-238یعنی بھاری ہوتاہے اور U-235 ہلکا ہوتا ہے اس طرح بھاری آئسو ٹوپس ٹیوب کی دیوار کے پاس چلا جاتا ہے اور ہلکا U-235ٹیوب کے درمیانی حصہ میں آجاتا ہے اس طرح بہت ہی پیچیدہ طریقہ سے یہ گیس اگلے ٹیوب میں جاتی ہے اور یہ سلسلہ تقریباً15مرحلوں میں تین فیصد افزودہ U-235تیار کرتا ہے اور اسی طرح اور زیادہ افزودہ کرنا ہو تو پھر دوسرے 15مرحلے والے سسٹم میں یہ گیس ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ U-235کی افزودگی 90فیصد ہوجاتی ہے اور U-238کی افزودگی98.3فیصد سے گھٹ کر 0.25 فیصد رہ جاتی ہے۔ یہ کام بے حد مشکل ہے مگر اس میں بجلی کا خرچ کم ہوتا ہے اور افزودگی کے دوسرے طریقوں کے مقابلہ میں بہت ہی اچھا ہے۔ U-238 ایٹم بم میںU-235کے چاروں طرف لگا کر استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرے بہت وزنی ہونے اور ٹکرا کر پھٹنے اور آگ پیدا کرنے کی وجہ ٹینک شکن راکٹ میں استعمال ہوتا ہے ۔
رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی صلاحیت غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی لیکن 1974ءکے بھارتی ایٹمی دھماکوں پر نہ تو دنیا نے اِسے ہندو بم سے تشبیہ دی اور نہ ہی مغرب کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی کنونشن کی خلاف ورزی کے حوالے سے کسی قرار واقعی ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کےلئے آپ کی قیادت میںکام شروع کیا تو اِسے نہ صرف اسلامی بم قرار دیا گیا بلکہ امریکہ اور اسرائیل نے اِسے نادیدہ خطرے سے تعبیر کیا ، مغرب کے قول و فعل میں اِس دوعملی کی کیا وجوہات ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:یہ بالکل صحیح ہے کہ بھارت نے امریکہ اور کینیڈا کو دھوکہ دے کر ان کے دیئے ہوئے ری ایکٹر اور ہیوی واٹر کو استعمال کر کے پلوٹونیم بنا کر ایٹم بم میں استعمال کیا تھا۔ ہمارے خلاف مغربی اور ہندو قومیں اس لئے صف آراءہوئی ہیں کیونکہ ماضی میں ان کو مسلمانوں کی تہذیب و تمدن نے روند ڈالا تھا۔صلیبی جنگیں اسی کی کڑیاں تھیں اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسی اسی گھٹیا نفسیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ہم سے ان کی یہ دشمنی قیامت تک جاری رہے گی کیونکہ وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ ہمارے مذہب اورتہذیب و تمدن نے ان کی تہذیبی جڑوں کو ہلا دیا تھااور وہ لوگ یہ بات آج تک نہیں بھولے ہیں۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ بتانا چاہیں گے کہ 80کی دہائی میں بھارتی صحافی کلدیپ نائیر جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کے پس پردہ اثرات کے تحت کام کرتے ہیں کی مشاہد حسین سید کے ہمراہ آپ سے ملاقات کی کیا اہمیت تھی اور کیا آپ اِس ملاقات کے ذریعے ہندوستان پر واضح کرنا چاہتے کہ Hand off from Pakistan\\\" \\\" کیونکہ اُس وقت پاکستان ایک خاموش ایٹمی طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جس کا کھلم کھلا اظہار چاغی ایٹمی دھماکوں کی شکل میں ممکن ہوا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں وہ چالاک ہندو صحافی مجھ سے الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے تھے، میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ 1965ءیا 1971ءکی بات نہیں اب اگرہندوستان نے جارحیت کی تو ہم بھی اُسکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔اس نے اس ذومعنی بات کا مطلب سمجھ لیا اور وہ تمام الفاظ میرے منہ میں ڈال دیئے جو میں نے نہیں کہے تھے تاکہ مغربی ممالک پریشان ہو جائیں اور ہماری امداد بند کر دیں۔ اس نے یہ انٹرویو ایک ہندو کال گرل پامیلابورڈیس سے نشر کرایا جو اس وقت سندھ آبزرور کے ایڈیٹر سے خصوصی تعلق رکھتی تھی۔ پھر بعد میں جنرل ضیاءالحق نے ہندوستانی اخبار کو انٹرویو میں ایسی ہی بات کہہ دی جس نے راجیو گاندھی کو بھی ہلا دیا تھا۔ اس وقت سے ہندوستان کی ہمارے خلاف کسی جارحیت کی جرا

¾ت نہیںہوئی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ آپ نے محترم مجید نظامی کے ہمراہ رائے ونڈ میںمیاں نواز شریف کے والد سے ملاقات کر کے جنرل پرویز مشرف کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ، اور کیا یہ بھی درست ہے کہ چاغی دھماکوں کے تاریخی موقع پر آپ نے جنرل پرویز مشرف کو شراب پی کر آنے پر ملامت کی تھی اور کیا اِس کا بدلہ پرویز مشرف نے وزارت دینے کی آڑ میں خان ریسرچ لیبارٹریز سے آپکی ریٹائرمنٹ اور نائین الیون کے بعد آپ کی نظربندی کی شکل میں دیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں! یہ بالکل صحیح ہے کہ مجید نظامی صاحب اور میں رائے ونڈ میں میاں محمد شریف(مرحوم) سے ملے تھے اور میں نے صاف صاف بات کی تھی اور میاں شریف صاحب نے نواز شریف سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا۔ وہ بولے کہ چوہدری نثار نے مشورہ دیا تھا۔ جبکہ پینے پلانے والی بات چاغی کے دھماکوں سے متعلقہ نہیں ہے۔ اِس سے قبل مشرف منگلہ میں تعینات تھاجب تو وہ چاغی میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے ، و ہ پینے پلانے والی بات 6اپریل 1998ءکی ہے جب ہم ٹِلّہ رینج سے غوری میزائل داغ رہے تھے۔ یہ شخص (مشرف) نہایت کم عقل، جھوٹا اور سخت کینہ پرور ہے جو عوام کے سامنے اور پوری دنیا کے سامنے جھوٹ بولتا رہا ہے اور تاثر یہ دیتا رہا ہے کہ بڑا بہادر کمانڈوہے مگردر حقیقت بے حد بزدل ہے اس نے کسی جنگ میں ایک گولی نہیں چلائی۔(جاری ہے)


ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں


07 جون 20121

رانا عبدالباقی :صدر پرویز مشرف نے 2006ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتا ب In The Line Of Fire\\\" \\\" میں تذکرہ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اُنہوں نے آپ کو KRL سے علیحدہ کر نے کا تہیہ کر لیا تھا جبکہ 2001ءمیں آپ کو ترقی دیکر نہ صرف وزیر مملکت بنا دیا گیا بلکہ27 مارچ 2001ءمیں آپ کے اعزاز میں ایک سرکاری ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے آپ کی تعریف میں جو کچھ کہا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے ، میں اُن کی طویل تقریر سے صرف دوجملوں پیش کرنے کی اجازت چاہونگا جس میں اُنہوں نے آپ کی شان میں فرمایا تھا کہ ”آخر کار اللہ نے قوم کی دعائیں سن لیں ، ہماری صورتحال پر رحم آگیا ، ایک معجزہ رونما ہوا اور پردہ غیب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل نابغہ کا ظہور ہوا اور یہ نابغہ روزگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ، ایسے نابغہ جس نے تن تنہا قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کر دیا، جناب ڈاکٹر صاحب مجھے رسمی طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانے کی اجازت دیجئے کہ قوم کو آپ نے جو کچھ دیا ہے اُس کےلئے یہ قوم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی ہمیشہ آپ کی ممنونِ احسان رہے گی ،آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور ہماری آئندہ نسلوں کے مبداءفیضان ہیں ، کوئی شخص بھی آپ سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتا کیونکہ تاریخ میں آپ کے مقام کا تعین ہوچکا ہے“ ۔ چنانچہ مندرجہ بالا تناظر میں یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا نائین الیون کے بعد سے 2006ءتک پرویز مشرف مکمل طور پر CIA کی لائین پکڑ چکے تھے وگرنہ بطور چیف ، قومی ایٹمی ادارے کے سربراہ ہونے کے باوجود پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلقہ تفصیلات کو کلی طور پر بیرونی دنیا کے سامنے expose کرنے کا کیا مقصد تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی آپ خود ہی اس جھوٹے شخص کے تحریری بیانات دیکھ لیجئے27مارچ 2001ءمیں وہ میری شان میں قصیدے پڑھ رہاتھا اور زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا ۔ وہ تقریر میں نے تو اُسے لکھ کر نہیں دی تھی اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ میں نے اس کی تقریر کا دو الفاظ میں بھی جواب نہیں دیا تھا ایسی ہی کئی اور باتیں تھیں جن کی وجہ سے وہ میرا جانی دشمن بن گیا ۔ مشرف نے 2001ءمیں ہی 9/11کے بعد امریکی غلامی کر لی تھی اور امریکن اور برٹش تو میرے خون کے پیاسے تھے ہی مشرف نے امریکی ایجنڈے پر کام شروع کر دیااور وہ کام جو پوری مغربی دنیا ہمارے خلاف نہ کر پائی تھی وہ اس بزدل ڈکٹیٹر نے اُن کےلئے کر دیا۔ اس نے اپنی کتاب میں جو باتیں نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں لکھی ہیں وہ ملک سے غداری کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس پر اس کو پھانسی یا عمر قید کی سزا ملنی چاہئے۔
رانا عبدالباقی : کیا یہ درست ہے کہ مشرف اپنی ذاتی کمزوریوں کے سبب بیرونی دبا برداشت نہ کر سکے اور جوہری پھیلا کی تمام ذمہ داری کمال عیاری سے آپ کے سر تھوپنے کےلئے پاکستان کی سلامتی کے نام پر آپ سے سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دلوایا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جب آپ پرویز مشرف کے دبا میں نہیں آئے تو مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کے ذریعے خدا اور رسول کے واسطے دیکر آپ کو پاکستان کی سلامتی کی خاطر سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دینے پر مجبور کیا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: مشرف بزدل اور ڈرپوک تھا اور مجھ سے ذاتی دشمنی تھی اس لئے نہ صرف مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیابلکہ ہمارے پروگرام سے متعلق حساس قسم کا سامان پہنچانے والے ذرائع کو بھی اس نے بہت نقصان پہنچایا۔میں کسی قسم کا بیان دینے کو تیار نہیں تھا مگر میرے عزیز اور محترم دوستوں چوہدری شجاعت حسین اور ایس ایم ظفر صاحب نے ملک کی سلامتی کی خاطر دوستانہ مشورہ دیا کہ میں بیان پڑھ دوں اس بیان میں لا تعداد لغویات تھیں مگر ملک کی خاطر میں نے یہ بیان پڑھ دیا ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نہ ہی NPT اور نہ ہی NSGپر دستخط کئے تھے اور ہم کسی کو کسی قسم کی معلومات یا کسی کے خلاف کارروائی کرنے کے پابند نہ تھے۔ اس جاہل نے اپنے آپ کو شاہ (امریکہ) کا وفادار ثابت کرنے کےلئے مجھ سے بیان دلوا کر پاکستان کو مجرم بنا دیا۔ میں تو ایک شخص واحد تھا قربانی کے جذبے سے ہی پاکستان آیا تھا، جلدیا بدیر خالق حقیقی سے جا ملتا اور پاکستان پر آنچ تک نہ آتی۔ مشرف کو جان لینا چاہئیے تھا کہ ہم 20سال تک بم بنانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔وہ الزام لگاتے رہتے اور ہم یہاں انکار کرتے رہتے مگر یہ بات ایک کم تر تعلیم رکھنے والے شخص کے دماغ میں کس طرح سماسکتی تھی۔ میں نے بہر حال اس لکھے ہوئے کاغذ میں ایک ترمیم اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے ضرور کرائی تھی کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ نیک نیتی سے کیا ہے۔ ایک ا ور بات یہ جو جوہری ٹیکنالوجی ہے وہ کسی کے باپ کی ملکیت نہیں تھی۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال کی محنت و مشقت سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی تھی اور میں نے یہ ٹیکنالوجی کسی کو بیچی نہیں تھی بلکہ اپنے وطن کو بغیر کوئی معاوضہ لئے دی تھی ، اِس سے کسی کو سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ میں یہ ٹیکنالوجی کسی کو دوں یا نہ دوں ۔ میں نے اپنے خاندان کی زندگی ، اپنی زندگی اور مستقبل کو دا پر لگا کر یہ چیز پاکستان کو بلا معاوضہ دی تھی جس کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں دو ارب ڈالر تھی اور پاکستان کو یہ چیز اتنی قیمت میں بھی کوئی نہ دیتا میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ، اپنے وطن کی مٹی سے وفا کی ہے۔مشرف نے اُسی روز پریس کانفرنس کی تھی کہ ڈاکٹر خان ایک آزاد شہری کی حیثیت سے با عزت زندگی گزار سکتے ہیں ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہوگی صرف ملک سے باہر جانے کےلئے حکومت سے این او سی لینا ہوگا اس نے مجھ سے خود بھی وعدہ کیا تھاکہ آپ کو بہت جلد ہی پوری طرح بحال کر دینگے لیکن اِس کے برعکس ہوا، اور دوسرے دن ہی مجھے نظر بند کر دیا گیا۔ میری بچی کاکمپیوٹر اٹھا کر لے گئے۔ ٹیلیفون لائن کاٹ دی اور ہمارے موبائل فون چھین لئے گئے ، میری غیر ملکی اہلیہ یہی سوچتی تھی کہ کیا بے لوث خدمت کا یہی صلہ ہے۔ چند دن بعد جنرل قدوائی اور ان کی بیگم ہم سے ملنے آئے اور وعدہ کیا کہ دو تین مہینے میں تمام پابندیاں ختم کر دی جائینگی۔ اس بات کو اب سات برس سے زیادہ ہوگئے اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ابھی تک گھر کے باہر اور آس پاس بے شمار لوگ موجود ہوتے ہیں اور آنے جانے والوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، سیکیورٹی ضرور ہونی چاہئیے لیکن مجھے قیدی بنا کر نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ یہی نہیں بلکہ ماضی میں ایک روز مجھے اور میری اہلیہ کو جبراً بنی گالہ لے جایا گیا اور آٹھ سفید پوشوں نے ہمارے پورے گھرکو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ بستر، الماری میں کپڑے، چند آلات، بنک کی فائلیں ، تمام بندوقیں سب لے گئے اور بہن اور بھائی تک پر آکر ملنے کےلئے صرف دو دن دیئے جاتے تھے۔ میری بیٹی کو جو لندن میں رہ رہی تھی ایک سال تک واپس نہیں آنے دیا گیا۔ اخبارات میں میری پوری طرح کردار کشی کی گئی اور ہر قسم کے جاہلانہ الزامات لگائے گئے۔ہمارے گھر میں ہمارے بیڈ روم، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، بیٹی کے روم اور نواسی کے روم میں ہر جگہ سننے والے آلات نصب کر دیئے گئے ۔ بیڈ رومز میں بستر کے ساتھ یہ آلات لگائے گئے تھے یہ جاہل شخص (مشرف) اِس زعم میں تھا کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہوگا۔ میں نے چند دن میں ہی تمام آلات کو تلاش کر لیا تھا اور اگرہمیں کچھ ذاتی بات کرنی ہوتی تھی باہر لان پر جاکر کر لیتے تھے۔ یہ تمام بدمعاشیاں اس وقت ختم ہوئیں جب لاہور ہائی کورٹ کے جج اعجاز احمد چوہدری صاحب نے مجھے ایک آزاد شہری کی حیثیت سے رہنے اور لوگوں سے ملنے اور ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت دی ، میں اُن کا شکر گزار ہوں ۔
رانا عبدالباقی : تو گویا، سرکاری چینل پر پڑھا جانے والا بیان نہ تو آپ کا لکھا ہوا تھا اور نہ ہی آپکے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا تھا بلکہ یہ بیان سرکاری ٹیلی ویژن پر پڑھنے کیلئے مبینہ طور پر آپ کو ملک کے بہترین مفاد میں دیا گیا تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں ایسا ہی ہے۔ یہ بیانSPDنے تیار کیا تھا اور شاہ (امریکہ) سے زیادہ وفاداری ثابت کرنے کےلئے اس میں مجھے ملوث کرنے کے لئے اس قدر جھوٹ لکھا گیاکہ پوری دنیا کو فوراً ہی علم ہوگیا کہ یہ ایک مفروضہ بیان ہے جسے میرے ہاتھ میں پڑھنے کےلئے تھما دیا گیا تھا۔ میں نے صرف اور صرف ملک کے بہترین مفاد میں یہ بیان پڑھ دیا ورنہ ٹیکنالوجی نہ تو میں نے اُن کو بیچی تھی اور نہ ہی اِس کے بدلے کوئی ایک روپیہ معاوضہ لیا تھا لیکن یہ ٹیکنالوجی بہرحال سینکڑوں سائنسدانوں کی شب وروز محنت کا نتیجہ تھی اور میں خود بھی اِن میں شامل تھا اور اِن ملکوں نے یہ ٹیکنالوجی 2ارب ڈالر خرچ کر کے حاصل کی تھی۔(جاری ہے)
رانا عبدالباقی : جناب عالی، مشرف کی کتاب میں جوہری پھیلا کے حوالے سے چیپٹر 27میں دی گئی متضاد معلومات پڑھ کر عام قاری کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مشرف حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں ۔ 2006ءمیں لکھی کتاب میں 1999ءسے ہی آپ کے کردار پر شبہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن مشرف شاید لکھتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ مارچ 2001ءتک تو وہ آپ کی تعریفوں کے پُل ہی باندھتے رہے اور یہ سلسلہ 2003ءتک جاری رہا جب صدر بش کے کہنے پر اُن کی ملاقات ایٹمی پھیلا کے موضوع پر امریکی سی آئی اے چیف سے ہوئی ۔ اپنی کتاب میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سی آئی اے چیف نے اُنہیں سینٹری فیوج کے نقشے دکھاتے ہوئے آپ پر کسی الزام کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے جو کچھ کہا وہ حرف بحرف درست ہے آپ مشرف کی تحریروں اور بیانات میں تضاد دیکھ لیجئے، کہا جاتا ہے جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے لیکن میں کہونگا کہ جھوٹے کا دماغ نہیں ہوتا وہ خود بھول جاتا ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا۔ اس نے خود ہی لکھا ہے کہ نہ ہی سی آئی اے کے سربراہ نے میرا نام لیا تھا اور نہ ہی کسی ڈرائنگ پر میرا یا کے آر ایل کا نام تھا مگر اس کند ذہن کو جو کچھوے کے منہ اور دم میں تمیز نہیں کرسکتا، کہتا ہے کہ میں نے ڈرائنگ کو دیکھ کر فوراً ہی پہچان لیاکہ وہ P-1کی ہےں۔حالانکہ P-1 توہم نے 1982ءمیں بنانا بند کر دی تھیں اور P-IIلگا دی تھیں۔1998ءمیں چیف بننے سے پہلے مشرف کو کہوٹہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایران اور لیبیا کے حوالے سے صرف اتنا کہونگا کہ چونکہ یورپ کے چند سپلائرز وہی تھے جنہوں نے ہمیں سامان مہیا کیا اور وہ ہی ایران اور لیبیا کو سامان بیچ رہے تھے چنانچہ امریکیوں نے بجائے اُن کے مجھے قربانی کا بکرا بنانا آسان سمجھا کیونکہ یہاں اُن کے احکام کی تابعداری کے لئے اُنہیں ایک ڈکٹیٹر مل گیا تھا۔
رانا عبدالباقی :مشرف جانتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت مغرب کے ایٹمی پُرزوں کے سپلائرز کی مرہون منّت تھی جبکہ قرائین یہی کہتے ہیں کہ مبینہ ایٹمی پھیلا میں ملوث دیگر ممالک بشمول ایران ، شمال کوریا اور لیبیا بھی بظاہر اِنہی مغربی ملکوں کے سپلائرز کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے لیکن اِن میں سے کوئی بھی ملک ابھی تک ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ مشرف کی کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی بھارتی میڈیا میں مشرف کی کتاب کی تمام تر معلومات اہم خبر کے طور پر نشر کر دی گئی تھی ، اِسے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بات سچ ہے کہ شمالی کوریا کے سوا باقی دو ممالک ان ہی مغربی تاجروں سے تمام سامان خرید رہے تھے۔مشرف نے اپنی کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں اگر کسی اور ملک میںکوئی شخص ایسا لکھتا تو اُسے پھانسی مل گئی ہوتی مگر ہمارے ملک میں غدار پھلتے پھولتے ہیں، بغاوت کرتے ہیں ،حکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔
رانا عبدالباقی : پرویز مشرف صدر مملکت کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد اِس اَمر کے پابند تھے کہ بطور صدر اُن کے نوٹس میں آنے والی معلومات کو وہ براہ راست یا بلواسطہ طور پر سرکاری ذمہ داری نبھانے کے سوا کسی پر آشکار نہیں کریں گے تو کیا صدر مملکت کے طور پر بھاری معاوضے کے حصول پر اِس کتاب میں خفیہ جوہری معلومات کا تذکرہ اُن کے حساس عہدے کے منافی نہیں تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے اس نے کسی سے اجازت طلب نہیں کی نہ صرف تمام راز امریکہ اور دوسرے ممالک کو دے دیئے بلکہ سنٹری فیوج مشین کوبھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے حوالے کر دی۔ اگر امریکن اس سے کہتے ہیں اُن کے سامنے ننگا ناچ کر دکھائے تو وہ ایسا بھی ضرور کرتا، کیونکہ مشرف ہر حال میں اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر کے طور منوانے کےلئے بیتاب تھا۔
رانا عبدالباقی :جناب عالی ایک سابق برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن جو اب امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں نے آر جعفری سمتھ کے مضمون میں شمالی کوریا کے جون بیونگ کے خط کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے لیکن چونکہ اِس دوران آپ نظر بند تھے تو کیا سائمن نے یہ خط آپ کی نظر بندی کے دوران آپ سے حاصل کیا تھا اور کیا نظر بندی کے دوران مشرف حکومت نے ایٹمی پھیلا سے متعلق کسی بیرونی ایجنسی کو آپ سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:نظر بندی کے دوران مجھ سے کسی بیرونی قوت یا ایجنسی نے بات چیت نہیں کی۔ مشرف ڈرتا تھا کہ اگر اس نے کسی کوملنے کی اجازت دی تو میں ہر چیز کھل کے بتلا دونگا ۔جو خط میں نے اپنی بیگم کو دیا تھا اس کی کاپی ازراہ حفاظت بڑی بیٹی کو دیدی تھی جب وہ واپس لندن جا رہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط نکال لیا اور اس نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مشرف نے اپنے کارندوں کے ذریعہ وہ خط امریکہ کو دیا۔ امریکی حکومت ایسی چیزیں مناسب وقت پر سی آئی اے کے ذریعہ اپنے معتبر اخبار نویس یا صحافی کو دے کر افشاں (یعنی لیک) کر دیتے ہیں یہاں بھی یہی ہوا ہے۔
رانا عبدالباقی :اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن سے نہ توآپ کی ملاقات ہوئی اور نہ ہی آپ نے یہ خط اس کے حوالے کیا تھا تو پھر قومی مفادات کے بر خلاف یہ کہانی کس کی تیار کر دہ تھی اور کیا سائمن ہنڈرسن کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ 1980ءسے بذریعہ خط و کتابت آپ کے ساتھ رابطے میں تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی نہیں میری سائمن ہنڈرسن سے 1997ءکے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اِس سے قبل بعض اوقات وہ پاکستان کے بارے میں غیر ممالک میں شائع ہونے والے الزامات کے بارے میں مجھ سے پوچھتے تھے اور میں اس کی تردید کر دیا کرتا تھا۔ وہ ایک اچھے صحافی ہیں اور عموماً پاکستان کے لئے اچھے مضامین لکھتے رہے ہیں جس خط کا حوالہ دیا گیا ہے وہ میں نے اپنی بیگم کو لکھ کر د یا تھاانہوں نے احتیاطاً بڑی بیٹی کو دیدیا تھا کہ وہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیں لیکن جب وہ لندن جارہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط میری بیٹی دینا کے سوٹ کیس سے نکال لیا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب اور پریس کانفرنس میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ خط اسی نے سی آئی اے کو دیا اور وہاں سے انہوں نے اس کو افشاں کر دیا کہ عوام کی نگاہ میں میری دقعت اور عزت کم ہو جائے۔ جو شخص حساس سنٹری فیوج مشینیں امریکیوں کو دے سکتا ہے اس کے مقابلے میں اس خط کی کیا حیثیت تھی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں آپ کے خلاف ہرزہ سرائی پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے 2007ءمیں آپ کی مالی خستہ حالی کے پیش نظر پنشن میں مناسب اضافہ کیا تھا اور کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایٹمی حوالے سے اُن کی کتاب میں کیا جانے والا تذکرہ ماضی میں آپ کی جانب سے جنرل مشرف کو چیف آف سٹاف بنانے پرآپ کی میاں شریف مرحوم سے ملاقات کا شاخسانہ تھا اور محض ایک انتقامی کاروائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں یہ بالکل سچ ہے ۔ اُس نے بے بنیادالزامات لگائے تھے اور اس کے کارندے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کم از کم دس کروڑ ڈالر تو ہونگے لیکن کچھ عرصہ بعد حقائق سامنے آگئے کہ ہم بہت مشکل سے گزارہ کر رہے تھے اور کراچی سے میری بہن اور بڑے بھائی ہر مہینہ اگرچہ کچھ رقم میری اہلیہ کو دے جاتے تھے تو گزارا ہوتا تھا ۔ پھر مشرف نے اسپیشل پنشن مقرر کردی کیونکہ 25 برس تک ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد میری پنشن صرف4467روپے تھی یہ صلہ دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت فراہم کرنے اور اپنی خاندانی زندگی کو اور مغرب میں اعلیٰ پیمانے کی زندگی گزارنے کو تباہ کرنے کی پاداش میں ملا تھا مشرف کو تو مجھ سے خدائی بغض تھا بہت سی باتیں تھیں دوسرے اس کے آگے لیٹ جاتے تھے اور میں منہ پر اسکو اچھا سخت جواب دیدیتا تھا۔ یہ شخص میری گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا اور چیف بننے کے بعد احساس کمتری کا شکار تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا ماضی میں آپ کے خلاف ایٹمی دستاویزات کے غلط استعمال پر یورپ میں کوئی مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور اِس مقدمے میں آپ کو بری کئے جانے کے باوجود آپ کے خلاف مغربی پروپیگنڈے میں کمی کیوں نہیں آئی جبکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی دھماکوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ نہ ہونے کے برابر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں 1983ءمیں ہالینڈمیں میری غیر موجودگی میں جھوٹا الزام لگا کرمقدمہ چلا کر 4سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن میں نے ایس ایم ظفر صاحب اور دوڈچ و کیلوں کی معاونت کے ساتھ اپیل کر دی تھی اور مقدمہ جیت لیا تھا اور خود پبلک پراسیکیوٹر نے لکھ کر دیا کہ انہیں کبھی بھی شک نہ تھا کہ میں نے کوئی جاسوسی کی ہے مگر چھوٹی عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ سنا دیا تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پوکھران بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ایٹمی دھماکے کی شدت جس نے چاغی کی پہاڑیوں کو سلگنے پر مجبور کر دیا ، دنیا بھر میں اب تک ہونے والے ایٹمی تجرباتی دھماکوں سے کہیں زیادہ قوت کی حامل تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: نہیں یہ بات نہیں ہے۔ اس قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت کم و بیش برابر ہی ہوتی ہے پانچ فیصد فرق کے اندر ہی اندر ان کی قوت میں فرق ہوتا ہے۔
رانا عبدالباقی :آپ کی نظر بندی کے دوران آپ کے خلاف لگنے والے ایٹمی پھیلا کے الزامات پر آپ کی صاحبزادی نے مغربی پریس کی غلط فہمیاں دور کرنے کےلئے لندن میں قابل ذکر کردار ادا کیا تھا ، کیا آپ اِس کے بارے میں کہنا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میری بڑی بیٹی ہی نہیں بلکہ میرے تمام بہن بھائیوں نے اور میری اہلیہ نے نہایت صبر و ہمت سے ان تمام تکالیف کا حوصلہ سے مقابلہ کیا اور وہ میرے لئے بہت ہی مفید و کار آمد بات تھی کہ مجھے کبھی پریشانی کا احساس نہیں ہوا۔ مجھے علم تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جو کچھ حکومت کہتی رہی اس پر ہی عمل کیا۔ بڑی بیٹی چونکہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہے اور نہ صرف بہادر ہے بلکہ بہت اچھی لکھنے اور بولنے والی ہے اس نے ہر جگہ میرے خلاف ہونے والی بد معاشی کا منہ توڑ جواب دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، کچھ یادیں کچھ باتیں....قسط (۵)
کالم نگار  |  رانا عبدالباقی
11 جون 20120
رانا عبدالباقی : جناب عالی، مشرف کی کتاب میں جوہری پھیلا کے حوالے سے چیپٹر 27میں دی گئی متضاد معلومات پڑھ کر عام قاری کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مشرف حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کر رہے ہیں ۔ 2006ءمیں لکھی کتاب میں 1999ءسے ہی آپ کے کردار پر شبہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن مشرف شاید لکھتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ مارچ 2001ءتک تو وہ آپ کی تعریفوں کے پُل ہی باندھتے رہے اور یہ سلسلہ 2003ءتک جاری رہا جب صدر بش کے کہنے پر اُن کی ملاقات ایٹمی پھیلا کے موضوع پر امریکی سی آئی اے چیف سے ہوئی ۔ اپنی کتاب میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سی آئی اے چیف نے اُنہیں سینٹری فیوج کے نقشے دکھاتے ہوئے آپ پر کسی الزام کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے جو کچھ کہا وہ حرف بحرف درست ہے آپ مشرف کی تحریروں اور بیانات میں تضاد دیکھ لیجئے، کہا جاتا ہے جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے لیکن میں کہونگا کہ جھوٹے کا دماغ نہیں ہوتا وہ خود بھول جاتا ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا۔ اس نے خود ہی لکھا ہے کہ نہ ہی سی آئی اے کے سربراہ نے میرا نام لیا تھا اور نہ ہی کسی ڈرائنگ پر میرا یا کے آر ایل کا نام تھا مگر اس کند ذہن کو جو کچھوے کے منہ اور دم میں تمیز نہیں کرسکتا، کہتا ہے کہ میں نے ڈرائنگ کو دیکھ کر فوراً ہی پہچان لیاکہ وہ P-1کی ہےں۔حالانکہ P-1 توہم نے 1982ءمیں بنانا بند کر دی تھیں اور P-IIلگا دی تھیں۔1998ءمیں چیف بننے سے پہلے مشرف کو کہوٹہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایران اور لیبیا کے حوالے سے صرف اتنا کہونگا کہ چونکہ یورپ کے چند سپلائرز وہی تھے جنہوں نے ہمیں سامان مہیا کیا اور وہ ہی ایران اور لیبیا کو سامان بیچ رہے تھے چنانچہ امریکیوں نے بجائے اُن کے مجھے قربانی کا بکرا بنانا آسان سمجھا کیونکہ یہاں اُن کے احکام کی تابعداری کے لئے اُنہیں ایک ڈکٹیٹر مل گیا تھا۔
رانا عبدالباقی :مشرف جانتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت مغرب کے ایٹمی پُرزوں کے سپلائرز کی مرہون منّت تھی جبکہ قرائین یہی کہتے ہیں کہ مبینہ ایٹمی پھیلا میں ملوث دیگر ممالک بشمول ایران ، شمالی کوریا اور لیبیا بھی بظاہر اِنہی مغربی ملکوں کے سپلائرز کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے لیکن اِن میں سے کوئی بھی ملک ابھی تک ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ مشرف کی کتاب کے شائع ہونے سے قبل ہی بھارتی میڈیا میں مشرف کی کتاب کی تمام تر معلومات اہم خبر کے طور پر نشر کر دی گئی تھیں ، اِسے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بات سچ ہے کہ شمالی کوریا کے سوا باقی دو ممالک ان ہی مغربی تاجروں سے تمام سامان خرید رہے تھے۔مشرف نے اپنی کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں اگر کسی اور ملک میںکوئی شخص ایسا لکھتا تو اُسے پھانسی مل گئی ہوتی مگر ہمارے ملک میں غدار پھلتے پھولتے ہیں، بغاوت کرتے ہیں ،حکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔
رانا عبدالباقی : پرویز مشرف صدر مملکت کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد اِس اَمر کے پابند تھے کہ بطور صدر اُن کے نوٹس میں آنے والی معلومات کو وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر سرکاری ذمہ داری نبھانے کے سوا کسی پر آشکار نہیں کریں گے تو کیا صدر مملکت کے طور پر بھاری معاوضے کے حصول پر اِس کتاب میں خفیہ جوہری معلومات کا تذکرہ اُن کے حساس عہدے کے منافی نہیں تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے اس نے کسی سے اجازت طلب نہیں کی نہ صرف تمام راز امریکہ اور دوسرے ممالک کو دے دیئے بلکہ سنٹری فیوج مشین بھی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے حوالے کر دی۔ اگر امریکن اس سے کہتے ہیں اُن کے سامنے ننگا ناچ کر دکھائے تو وہ ایسا بھی ضرور کرتا، کیونکہ مشرف ہر حال میں اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی سطح کے لیڈر کے طور منوانے کےلئے بیتاب تھا۔
رانا عبدالباقی :جناب عالی ایک سابق برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن جو اب امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں نے آر جیفری سمتھ کے مضمون میں شمالی کوریا کے جون بیونگ کے خط کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے لیکن چونکہ اِس دوران آپ نظر بند تھے تو کیا سائمن نے یہ خط آپ کی نظر بندی کے دوران آپ سے حاصل کیا تھا اور کیا نظر بندی کے دوران مشرف حکومت نے ایٹمی پھیلا سے متعلق کسی بیرونی ایجنسی کو آپ سے پوچھ گچھ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:نظر بندی کے دوران مجھ سے کسی بیرونی قوت یا ایجنسی نے بات چیت نہیں کی۔ مشرف ڈرتا تھا کہ اگر اس نے کسی کوملنے کی اجازت دی تو میں ہر چیز کھل کے بتلا دونگا ۔جو خط میں نے اپنی بیگم کو دیا تھا اس کی کاپی ازراہ حفاظت بڑی بیٹی کو دیدی تھی جب وہ واپس لندن جا رہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط نکال لیا اور اس نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں بھی کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مشرف نے اپنے کارندوں کے ذریعہ وہ خط امریکہ کو دیا۔ امریکی حکومت ایسی چیزیں مناسب وقت پر سی آئی اے کے ذریعہ اپنے معتبر اخبار نویس یا صحافی کو دے کر افشا(یعنی لیک) کر دیتے ہیں یہاں بھی یہی ہوا ہے۔
رانا عبدالباقی :اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی صحافی سائمن ہنڈرسن سے نہ توآپ کی ملاقات ہوئی اور نہ ہی آپ نے یہ خط اس کے حوالے کیا تھا تو پھر قومی مفادات کے بر خلاف یہ کہانی کس کی تیار کر دہ تھی اور کیا سائمن ہنڈرسن کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ 1980ءسے بذریعہ خط و کتابت آپ کے ساتھ رابطے میں تھا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی نہیں میری سائمن ہنڈرسن سے 1997ءکے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اِس سے قبل بعض اوقات وہ پاکستان کے بارے میں غیر ممالک میں شائع ہونے والے الزامات کے بارے میں مجھ سے پوچھتے تھے اور میں اس کی تردید کر دیا کرتا تھا۔ وہ ایک اچھے صحافی ہیں اور عموماً پاکستان کے لئے اچھے مضامین لکھتے رہے ہیں جس خط کا حوالہ دیا گیا ہے وہ میں نے اپنی بیگم کو لکھ کر د یا تھاانہوں نے احتیاطاً بڑی بیٹی کو دیدیا تھا کہ وہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیں لیکن جب وہ لندن جارہی تھی تو مشرف کے آدمیوں نے وہ خط میری بیٹی دینا کے سوٹ کیس سے نکال لیا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب اور پریس کانفرنس میں اس کا تذکرہ کیا۔ یہ خط اسی نے سی آئی اے کو دیا اور وہاں سے انہوں نے اس کو افشا کر دیا کہ عوام کی نگاہ میں میری دقعت اور عزت کم ہو جائے۔ جو شخص حساس سنٹری فیوج مشینیں امریکیوں کو دے سکتا ہے اس کے مقابلے میں اس خط کی کیا حیثیت تھی۔
رانا عبدالباقی :کیا یہ درست ہے کہ صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں آپ کے خلاف ہرزہ سرائی پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے 2007ءمیں آپ کی مالی خستہ حالی کے پیش نظر پنشن میں مناسب اضافہ کیا تھا اور کیا اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایٹمی حوالے سے اُن کی کتاب میں کیا جانے والا تذکرہ ماضی میں آپ کی جانب سے جنرل مشرف کو چیف آف سٹاف بنانے پرآپ کی میاں شریف مرحوم سے ملاقات کا شاخسانہ تھا اور محض ایک انتقامی کاروائی تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں یہ بالکل سچ ہے ۔ اُس نے بے بنیادالزامات لگائے تھے اور اس کے کارندے مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کم از کم دس کروڑ ڈالر تو ہونگے لیکن کچھ عرصہ بعد حقائق سامنے آگئے کہ ہم بہت مشکل سے گزارہ کر رہے تھے اور کراچی سے میری بہن اور بڑے بھائی ہر مہینہ اگرچہ کچھ رقم میری اہلیہ کو دے جاتے تھے تو گزارا ہوتا تھا ۔ پھر مشرف نے اسپیشل پنشن مقرر کردی کیونکہ 25 برس تک ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد میری پنشن صرف 4467 روپے تھی یہ صلہ دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت فراہم کرنے اور اپنی خاندانی زندگی کو اور مغرب میں اعلیٰ پیمانے کی زندگی گزارنے کو تباہ کرنے کی پاداش میں ملا تھا مشرف کو تو مجھ سے خدائی بغض تھا بہت سی باتیں تھیں دوسرے اس کے آگے لیٹ جاتے تھے اور میں منہ پر اسکو اچھا سخت جواب دیدیتا تھا۔ یہ شخص میری گاڑی کا دروازہ کھولتا تھا اور چیف بننے کے بعد احساس کمتری کا شکار تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا ماضی میں آپ کے خلاف ایٹمی دستاویزات کے غلط استعمال پر یورپ میں کوئی مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور اِس مقدمے میں آپ کو بری کئے جانے کے باوجود آپ کے خلاف مغربی پروپیگنڈے میں کمی کیوں نہیں آئی جبکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بھارتی دھماکوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ نہ ہونے کے برابر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: جی ہاں 1983ءمیں ہالینڈمیں میری غیر موجودگی میں جھوٹا الزام لگا کرمقدمہ چلا کر 4سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن میں نے ایس ایم ظفر صاحب اور دوڈچ و کیلوں کی معاونت کے ساتھ اپیل کر دی تھی اور مقدمہ جیت لیا تھا اور خود پبلک پراسیکیوٹر نے لکھ کر دیا کہ انہیں کبھی بھی شک نہ تھا کہ میں نے کوئی جاسوسی کی ہے مگر چھوٹی عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ سنا دیا تھا۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پوکھران بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ایٹمی دھماکے کی شدت جس نے چاغی کی پہاڑیوں کو سلگنے پر مجبور کر دیا ، دنیا بھر میں اب تک ہونے والے ایٹمی تجرباتی دھماکوں سے کہیں زیادہ قوت کی حامل تھی ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: نہیں یہ بات نہیں ہے۔ اس قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت کم و بیش برابر ہی ہوتی ہے پانچ فیصد فرق کے اندر ہی اندر ان کی قوت میں فرق ہوتا ہے۔
رانا عبدالباقی :آپ کی نظر بندی کے دوران آپ کے خلاف لگنے والے ایٹمی پھیلا کے الزامات پر آپ کی صاحبزادی نے مغربی پریس کی غلط فہمیاں دور کرنے کےلئے لندن میں قابل ذکر کردار ادا کیا تھا ، کیا آپ اِس کے بارے میں کہنا چاہیں گے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میری بڑی بیٹی ہی نہیں بلکہ میرے تمام بہن بھائیوں نے اور میری اہلیہ نے نہایت صبر و ہمت سے ان تمام تکالیف کا حوصلہ سے مقابلہ کیا اور وہ میرے لئے بہت ہی مفید و کار آمد بات تھی کہ مجھے کبھی پریشانی کا احساس نہیں ہوا۔ مجھے علم تھا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جو کچھ حکومت کہتی رہی اس پر ہی عمل کیا۔ بڑی بیٹی چونکہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہے اور نہ صرف بہادر ہے بلکہ بہت اچھی لکھنے اور بولنے والی ہے اس نے ہر جگہ میرے خلاف ہونے والی بد معاشی کا منہ توڑ جواب دیا۔
رانا عبدالباقی :آپ نے یورپ کی آزاد فضاں کو چھوڑ کر پاکستان تشریف لا کرملکی سلامتی کےلئے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ، آپ کی اہلیہ اِس دوران انتہائی وفاداری سے آپ کا ساتھ دیتی رہی ، کیا آپ سمجھتے ہیں مغربی سماج میں پرورش پانے کے باوجود اُن کا یہ تاریخی کردار اعلیٰ مشرقی روایات سے بھی بڑھ کر تھا ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان: یہ بالکل ٹھیک ہے میری بیگم نہایت بہادر اور وطن پرست ہیں میرا خیال ہے کہ کوئی پاکستانی بیگم اتنا پریشر برداشت نہیں کر پاتی۔ اُن کی ہمت اور مدد کی وجہ سے ہی میں اتنا بڑا کام کر پایا۔ کسی زمانہ میں ہمارے ملحقہ گیسٹ ہاس میں ہم غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کی میٹنگز کیا کرتے تھے اور غلام اسحق خان صاحب میرے گھر آکر میری بیگم سے ملتے تھے اور اُس کاشکریہ ادا کرتے تھے حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر اُن کی مدد میرے شامل حال نہ ہوتی تو کہوٹہ کاکوئی نام بھی نہیں جانتا ۔آج کے سینہ پھلا کرچلنے والے اور کرپشن کے پیسے سے عیاشی کرنے والے پھر سے ہندوں کی غلامی کر رہے ہوتے۔ میں یہ ضرور عرض کرونگا کہوٹہ پروجیکٹ کی تکمیل میں میری ٹیم کے تمام رفقائے کار اور اُن کی بیگمات نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ہم سب نے اپنی خاندانی زندگی کو وطن کی بے لوث خدمت کے اس کام پرقربان کیاہے۔
رانا عبدالباقی :لوگ یہی کہتے ہیں اور ناچیز نے بھی آپ کےساتھ چند ملاقاتوں میں یہی محسوس کیا ہے کہ آپ پاکستانی ایٹم بم کے خالق ہونے کے باوجود انتہائی درد مند دل رکھنے والے انسان ہیںاور غریب و لا چار لوگوں کی مدد کےلئے دامے درمے سخنے مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، سفید پوش غریبوں کی مدد کےلئے آپ کی غیر معمولی دلچسپی کے پیچھے کونسا جذبہ متحرک ہے ؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:ہمارا خاندان بھوپال سے ہے اور وہاں بھر پور جنگلی شکار کا علاقہ ہے لیکن بے حد نرم دل تھے میرے والدین( اللہ بخشے۔آمین) بے حد نرم دل تھے ہمیں کبھی غلیل تک استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہی حال میری بیگم، بچیوں اور بہن بھائی کا ہے ہم ہمیشہ پرندوں ، بلیوں اور بندروں وغیرہ کو غذا دیتے ہیں اور اسلام آباد میں بھی ہمارے گھر 20-15بندر روز آتے ہیں اور ہاتھ سے پھل اور ڈبل روٹی لے کر کھاتے ہیں۔جوہری بم کا خالق ہونا کسی ظلم کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ میں وضاحت کرنا چاہوںگا کہ ہم نے ایٹم بم کسی کو مارنے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کی جان بچانے اور ملک کی سلامتی کی حفاظت کےلئے بنایا گیا ہے۔ بھارتی ایٹمی دھماکے ضرور خطے میں جوہری بالا دستی کے حوالے سے کئے گئے تھے لیکن چاغی کے دھماکے خطے میں پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کےلئے کئے گئے ہیں۔ سوائے مشرف کی کارگل کی بدمعاشی کے گذشتہ 40سال میں ہماری ہندوستان سے کوئی جنگ نہیں ہوئی اور انشاءاللہ پاکستان کے جوہری قوت بننے کے بعدکبھی نہیں ہوگی کیونکہ اب ہندوستان بھی مانتا ہے کہ جنگ سے اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لہذا، چاغی دھماکے امن کے ہتھیار کی دلیل ہیں ۔
رانا عبدالباقی :کیا آپ اپنے والدین کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گے بل خصوص آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ کے کردار کے بارے میں آپ کے پرستار ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی صلاحیت کے حامل شخص کی بنیادی تربیت کس طرح ہوئی؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان:میرے والدین بہت ہی نرم، مہربان اور نہایت شفقت کرنے والے انسان تھے ۔ والد نے زندگی
میں کبھی ڈانٹا بھی نہیں مگروالدہ نے ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا کہ ہم وقت پر اسکول جائیں، رات کو روزانہ پڑھیں، گھر کا کام کریںاور کسی غلط صحبت میں نہ بیٹھیں۔ یہ اُن کی نگرانی کااثر رہا کہ ہم سب تعلیم حاصل کر سکے۔ والد اور والدہ ہمیشہ محلہ کی بچیوں کو قرآن اور اسکول کی تعلیم مفت دیتے تھے اور قرآن شریف ختم کرنے اور امتحان میں پاس ہونے پر جوڑے اور نقد انعام دیتے تھے۔ میرے والدین بے حدہردلعزیز تھے۔
رانا عبدالباقی :سر اللہ آپ کوبھی بہت خوش رکھے آپ کو صحت کامل سے نوازے ۔ آپ فخر پاکستان ہیں ،آپ محسن پاکستان ہیں ، آپ قوم کے ہیرو ہیں، میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اِس طویل انٹرویو کےلئے وقت دیا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ۔


Surah Ar Rehman

Qurani-soorton-ka-nazm-e-jalinewEdition- تفسیر معارف القرآن

Maa