http://dailykhabrain.com.pk/category/columns/zia-shahid/
جنرل راحیل شریف
کی یادیں …..1
Dated 22-11-2016.Published in Khabrin
ضیا شاہد
قارئین محترم! آیئے کچھ باتیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بارے میں ہو جائیں جنہیں 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہو کر گھر جانا ہے لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہَے کہ پورے ملک میں عوام کی اکثریت کے دِل میں یہ خیال موجود ہَے کہ شاید عین وقت پر دہشت گردی کے خلاف بھرپور کامیابی حاصل کرنے اور اپنے تین سالہ دَور میں ملک بھر کے اندر جس جگہ لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچی، حادثہ ہوا، زلزلہ آیا، قحط کی شکل پیدا ہوئی، کوئی قدرتی ناگہانی آفت آئی تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سب سے پہلے وہاں پہنچ کر صورتِ حال کو سنبھالا اور پاک فوج نے اُن کی سربراہی میں مصیبت زدگان کی بھرپور امداد کی۔ یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو مختلف ٹی وی چینلز یہ خبریں نشر کر رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں، پھر بھی ہر دوسرے تیسرے شخص کے دِل میں جنرل راحیل شریف کے لئے محبت اوراحترام موجود ہے کہ وہ چلے گئے تو بھی پاکستانی عوام ہمیشہ اُنہیں یاد رکھے گی۔
آیئے ایک نظر جنرل راحیل شریف کی زندگی اور حالاتِ زندگی پر ڈالیں۔
18 ویں صدی کے وسط یعنی 1840ءمیں ایک کشمیری راجپوت خاندان گجرات کے نواحی قصبے کنجاہ میں آ کر آباد ہوا۔ ان کے آباﺅ اجداد کا پیشہ سپہ گری اور تجارت تھا۔ مہتاب دین نام کے کشمیری راجپوت کا دو منزلہ مکان کسمپرسی کی حالت میں آج بھی کوچہ مہتاب دین کنجاہ میں موجود ہے۔ رانا مہتاب دین کے ہاں محمد شریف نامی بچے نے جنم لیا۔ یہ انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے۔ محمد شریف کی وفات آج سے پانچ سال قبل لاہور میں ہوئی۔ محمد شریف اپنے آبا ﺅ اجداد کی تقلید میں برٹش آرمی کی رائل کور آف سگنلز میں بھرتی ہوئے۔ انہیں بعد ازاں کمیشن آفیسر کے طور پر منتخب کر لیا گیا، جو قیام پاکستان کے بعد بھی تادیر افواج پاکستان میں خدمات انجام دیتے رہے اور بطور میجر آرمی سے ریٹائر ہوئے۔
محمد شریف کے بڑے بیٹے شبیر شریف 28 اپریل 1943ءکو کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ بیگم محمد شریف کا تعلق گجرات کی تحصیل کھاریاں کے قصبہ لادیاں کے کشمیری خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کے ایک سپوت میجر راجہ عزیز بھٹی کو 65ءکی پاک بھارت جنگ میں بے مثل بہادری پر بعد از شہادت سب سے بڑا فوجی اعزاز ”نشان حیدر“ عطا کیا گیا۔
کنجاہ قصبے میں اب شاذ ہی کوئی عمر رسیدہ شخص ہو جس نے جنرل راحیل شریف کے والد یا ان کے بیٹوں کو خود دیکھا ہو گا۔ میجر محمد شریف کمیشن ملنے کے بعد کنجاہ سے نقل مکانی کر کے مختلف چھاﺅنیوں سے ہوتے ہوئے بالآخر گلبرگ لاہور میں مقیم ہوئے۔ کنجاہ کے مکان کی حالت زار اور دروازے پر لگے ہوئے تالے کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس خاندان نے دوبارہ اپنے آبائی شہر سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔
میجر شبیر شہید نشان حیدر کے نام پر ہیلتھ سنٹر کی شکل میں ایک چھوٹا سا ہسپتال کنجاہ میں آج بھی موجود ہے۔
میجر محمد شریف نے اپنے قصبے کے متعدد لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دی۔ حاجی عبدالغنی اس نسل کے آخری فرد ہیں جو آج بھی حیات ہیں ان کے مطابق گزشتہ برس جنرل راحیل شریف کی والدہ کی وفات پر اہلیان کنجاہ تعزیت کے لئے جنرل راحیل شریف کے پاس گئے تو انہوں نے دیہی ہیلتھ سنٹر کی بدحالی کا شکوہ کیا۔ جنرل راحیل شریف نے فوراً ہی وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ اِس طرف مبذول کروانے کے لئے فون پر گفتگو کی۔ اہلیان کنجاہ نے جنرل راحیل شریف کو بچپن یا عہد شباب میں بھی نہیں دیکھا نہ بہت سے لوگوں کو ان سے کبھی ملاقات کا موقع ملا۔ لیکن فوج سے ریٹائر ہونے والے حاجی عبدالغنی کہتے ہیں کہ میجر شریف نے اپنے عزیز و اقربا ہی نہیں اہل علاقہ کی خدمت کو ہمیشہ مقدم جانا لیکن وہ خود کنجاہ کبھی کبھار ہی آئے۔ جنرل راحیل شریف بھی کنجاہ اور گردونواح کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ 50 ہزار آبادی کے تنگ و تاریک گلیوں والے پرانے شہر کی ترقی اور دیگر سہولیات کا خیال کسی کو نہیں آیا اور آج بھی یہ ٹاﺅن اسی حال میں ہے۔
میجر محمد شریف کے بیٹے شبیر شریف، کیپٹن ممتاز شریف اور جنرل راحیل شریف ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میجر راجہ عزیز بھٹی (نشان حیدر) جنرل راحیل شریف کے سگے ماموں تھے اور سماجی رابطے کے ذرائع پر ان کے چاہنے والے پوری شد و مد سے یہی ثابت کرتے رہے ہیں مگر حقیقت میں راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا تعلق ان کے ننھیالی خاندان سے ضرور تھا مگر وہ ان کے ماموں نہیں تھے۔
1971ءکی جنگ میں جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف کے جسد خاکی کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا، جو شاید اس طرح کی واحد مثال ہے کیونکہ شہید کے ایک دوست کی آخرت سنوارنے کی وصیت خود شبیر شہید نے کی تھی اِن کے دوست تنویر احمد خاں نے عین عالم شباب میں خود کشی کر لی تھی جس کا میجر شبیر شریف کو بہت رنج تھا۔ اس لئے انہوں نے ایک عالم سے فتویٰ لیا کہ میرے مرحوم دوست تنویر کی بخشش کیسے ہو سکتی ہے۔ عالم نے کہا کہ اگر اس کی قبر کے ساتھ کوئی شہید دفن ہو جائے تو تنویر کی بخشش بھی ہو جائے گی۔ شبیر شریف اپنی زندگی میں ہی والدہ محترمہ کو ساتھ لے کر میانی صاحب قبرستان گئے اور انہیں تنویر صاحب کی قبر دکھائی اور خواہش ظاہر کی کہ اگرمیں شہید ہو کر آﺅں تو مجھے اس قبر کے ساتھ دفن کیا جائے۔
جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف جنہیں فوج میں رانا شبیر شریف کے نام سے پکارا جاتا تھا، 1964ءمیں 19 اپریل کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے اعزازی شمشیر کے ساتھ پاس آﺅٹ ہوئے اور 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ انہیں تعینات کیا گیا۔ پی ایم اے کاکول میں انہیں اپنے کورس میں اول پوزیشن حاصل ہوئی جس کی بنا پر انہیں بٹالین سینٹر انڈر آفیسر کا عہدہ دیا گیا جو کسی بھی جنٹلمین کیڈٹ کا خواب ہوتا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جنرل (اور بعد ازاں صدر) پرویز مشرف بٹالین جونیئر انڈر آفیسر کے طور پر شبیر شریف کے نائب کے عہدے پر 6 ماہ فائز رہے۔ لیفٹیننٹ شبیر شریف کو 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں تیسرے بڑے فوجی اعزاز ستارہ جرا ¿ت سے نوازا گیا، جو ازخود ان کی بہادری اور دلیرانہ شخصیت کا عکاس ہے۔ دشمن کے نرغے میں رہ جانے والی پاکستانی فوجی گاڑی کو دو جانفروش ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کی برستی ہوئی فائرنگ سے نکال کر لانے والے شبیر شریف کو اسی وجہ سے اعزاز سے نوازا گیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہماری فوجی گاڑی کو بھارتی افواج اپنی کامیابی و کامرانی کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکیں۔
(جاری ہے)
شبیرشریف فطرتاً نڈر اور مہم جو شخصیت کے مالک تھے۔ فوج کے چھوٹے موٹے نظم و ضبط کو پس پشت ڈالنا ان کا معمول تھا۔ اس کے باوجود ان کی نصابی سرگرمیاں اور پیشہ ورانہ کورسز میں پوزیشن صف اول کی رہی۔ ہیوی موٹر سائیکل چلانے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ابتدائی پیشہ ورانہ کورس کے لئے ہیوی موٹر سائیکل پر لاہور سے کوئٹہ اور واپسی کا سفر ان کی زندگی کی دلچسپ داستان ہے اسی سفر میں موٹر سائیکل سے گر کر شبیر شریف کو اچھی خاصی چوٹیں لگیں مگر اپنے والدین اور اعلیٰ افسروں کو پتہ نہیں چلنے دیا اپنی ابتدائی سروس میں جنگجویانہ فطرت اور مہم جوئی کے ہاتھوں اکثر و بیشتر جسمانی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار رہے مگر عسکری لگن کو اپنائے رکھا۔ سینئر عسکری کمان ان کے بعض اقدامات سے خفا بھی ہو جاتی تھی لیکن 65 ءکی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ شبیر شریف کی ولولہ انگیز کارکردگی نے تادیبی کارروائی کی بجائے انہیں ستارہ جرا ¿ت کا حقدار ٹھہرایا جسے کوئی بھی نوجوان افسر احساس تفاخر سے اپنے سینے پر سجانا چاہے گا۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جنگی کارکردگی کی بنا پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں انسٹرکٹر کے طور پر تعینات کرتے ہوئے ملٹری سیکرٹری برانچ کے سربراہ سوچ و بچار اور گومگو کی کیفیت کا شکار ضرور ہوں گے لیکن میجر شبیر شریف نے کاکول کی تاریخ میں کئی نئے باب رقم کئے۔ انتہائی سخت گیر افسر ہونے کے باوجود انہوں نے زیر تربیت کیڈٹس کے دل موہ لئے۔ ان کے اندر نہ جانے کئی صلاحیتیں بیک وقت موجود تھیں۔ تربیت اور ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور کیڈٹس کا ذاتی طور پر خیال رکھنے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے تربیت یافتہ کیڈٹس اب خود عرصہ دراز پہلے فوج سے فارغ ہو چکے ہیں لیکن شبیر شریف کے دلچسپ واقعات آج تک یاد رکھے جاتے ہیں اور اکثر پرانے فوجی ان کی باتوں کے ذکر پر فرطِ جذبات سے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
1971ءکی پاک بھارت جنگ چھڑی تو شبیر شریف پی ایم اے کاکول میں تعینات تھے۔ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے وہ ایک ہی شب میں اپنی یونٹ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں پہنچ گئے۔ جو بظاہر فوجی نظم و نسق کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن شبیر شریف جنگ لڑنا چاہتے تھے۔شاید قدرت نے ان کے لئے پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز وقف کر رکھا تھا۔ 105 بریگیڈ سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں دشمن سے پنجہ آزمائی میں مصروف تھا جس کے بریگیڈ میجر کا نام میجر عبدالوحید کاکڑ تھا۔ (جو بعد ازاں چیف آف آرمی سٹاف بنے) اس بریگیڈ نے بھارت کا 86 مربع کلو میٹر علاقہ قبضے میں لے لیا تھا۔ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی بی کمپنی کی کمان میجر شبیر شریف کے ہاتھوں میں تھی۔ بھارتی فوج کسی بھی طرح سلمانکی ہیڈ ورکس کو تباہ کرنا چاہتی تھی تا کہ دریا کی دوسری جانب موجود پاکستانی فوج کو محصور کیا جا سکے۔
3 دسمبر71ءکی شب میجر شبیر شریف دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کی پروا کئے بغیر اپنے جوانوں کے ساتھ بھارتی علاقے میں گھس کر حملہ آور ہوئے۔ 47 بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ 28 بھارتی فوجی قیدی بنا کر اپنے ساتھ واپس لے آئے 4 ٹینک تباہ کرنے کے علاوہ بھارتی علاقے میں ایک اہم نہری پل پر قبضہ کر لیا۔ 3 سے 6 دسمبر کے درمیان دشمن نے پل پر قبضہ واپس لینے کے لئے 14بھرپور حملے کئے۔ میجر شبیر شریف کی زیر قیادت ان کی کمپنی نے تمام حملے پسپا کر دیئے۔ دشمن کے مورچے میں گھس کر میجر نارائن سنگھ کے ساتھ دست بدست ہو کر اس کی سٹین گن چھینی اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ اس لئے میجر شبیر شریف کو فاتح صبونہ کہا جاتا ہے۔ میجر نارائن سنگھ اور 4 جاٹ رجمنٹ پر لگنے والا یہ کاری زخم بھارتی فوج آج تک نہیں بھولی ہو گی۔ میجر نارائن سنگھ اپنے سکھ جاٹ ہونے کی للکار کیلئے مشہور تھا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو میرے سامنے آئے۔ میجر شبیر شریف اس کے مورچے میں خود کود گئے اور جھپٹ کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔
6 دسمبر کی سہ پہر کو دشمن کے ایک بڑے حملے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی بٹالین کی اینٹی ٹینک گن سے دشمن کے بڑھتے ہوئے ٹینکوں پر گولے برسا رہے تھے کہ دشمن کی فوج کی طرف سے ایک گولے نے انہیں براہ راست ہٹ(Hit) کیا اور میجر شبیر شریف نے عین حالت جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ میجر شبیر شریف کی اس بے نظیر بہادری پر ان کو نشان حیدر عطا کیا گیا۔
اور اب آئیں میجر شبیر شہید کے چھوٹے بھائی راحیل شریف کی طرف
1981ءمیں گلگت میں ایک نوجوان فوجی افسر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں بطور جی 3 تعینات تھا اور راولپنڈی سے گلگت کا بس کا سفر چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔ گلگت میں پی آئی اے کی فوکر طیارے کی آمد و رفت موسم یا دیگر عوامل کی بنیاد پر بند ہو جایا کرتی تھی۔ نوجوان فوجی افسر بالخصوص کسی آتے جاتے ہیلی کاپٹر کے انتظار میں رہتے۔ جی ایچ کیو سے ایک جنرل ہیلی کاپٹر میں گلگت آئے جن کے ساتھ عملے اور مسافروں کے علاوہ دو نوجوان افسر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پیوما ہیلی کاپٹر گلگت سے فضا میں بلند ہوا تو پتن سے پہلے ہی ہیلی کاپٹر میں فنی خرابی آ گئی۔ پائلٹ نے شاہراہ قراقرم کے قریب ہیلی کاپٹر کو بحفاظت نیچے اتار لیا۔ جونہی ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلا سب نے چھلانگیں لگا کر تیزی سے بھاگنے کو ترجیح دی۔ عقبی نشست پر دونوجوان افسروں میں سے ایک نے باہر نکل کر محفوظ مقام تک پہنچنے کا ارادہ ہی کیا تھا تو اس کے ساتھ کھڑے لحیم شحیم اور مضبوط کاٹھی کے افسر نے بازو سے پکڑ لیا اور کہا ”لالے کِتھے نس رہیاں اے (بھائی کہاں بھاگ رہے ہو) جس پر جونیئر افسر نے کہا سر دیکھتے نہیں ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ میں دھواں بھر رہا ہے جو کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتا ہے۔ سینئر نوجوان افسر بولا ”اسیں عملے نوں چھڈ کے کس طرح جا سکدے آں (ہم عملے کو چھوڑ کر کس طرح جا سکتے ہیں) جونیئر نوجوان افسر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا اور اپنی جلد بازی اور گھبراہٹ پر شرمسار ہوا۔ ہیلی کاپٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے جنرل صاحب اور دیگر مسافر شور مچا رہے تھے۔ جلدی باہر نکلو۔ لیکن سینئر نوجوان افسر ٹس سے مس نہیں ہوا اور عملے کے ساتھ اندر ہی موجود رہا۔ ہیلی کاپٹر کے وائرلیس سیٹ کی انٹینا تار کے شعلہ پکڑنے سے اٹھنے والا دھواں متبادل نظام کے فعال ہونے سے بجھ گیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ سفر کے لئے تیار ہو گیا۔ اس سینئر نوجوان کا نام جس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تھا راحیل شریف تھا۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں….2
ضیا شاہد
شبیرشریف فطرتاً نڈر اور مہم جو شخصیت کے مالک تھے۔ فوج کے چھوٹے موٹے نظم و ضبط کو پس پشت ڈالنا ان کا معمول تھا۔ اس کے باوجود ان کی نصابی سرگرمیاں اور پیشہ ورانہ کورسز میں پوزیشن صف اول کی رہی۔ ہیوی موٹر سائیکل چلانے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ابتدائی پیشہ ورانہ کورس کے لئے ہیوی موٹر سائیکل پر لاہور سے کوئٹہ اور واپسی کا سفر ان کی زندگی کی دلچسپ داستان ہے اسی سفر میں موٹر سائیکل سے گر کر شبیر شریف کو اچھی خاصی چوٹیں لگیں مگر اپنے والدین اور اعلیٰ افسروں کو پتہ نہیں چلنے دیا اپنی ابتدائی سروس میں جنگجویانہ فطرت اور مہم جوئی کے ہاتھوں اکثر و بیشتر جسمانی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار رہے مگر عسکری لگن کو اپنائے رکھا۔ سینئر عسکری کمان ان کے بعض اقدامات سے خفا بھی ہو جاتی تھی لیکن 65 ءکی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ شبیر شریف کی ولولہ انگیز کارکردگی نے تادیبی کارروائی کی بجائے انہیں ستارہ جرا ¿ت کا حقدار ٹھہرایا جسے کوئی بھی نوجوان افسر احساس تفاخر سے اپنے سینے پر سجانا چاہے گا۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جنگی کارکردگی کی بنا پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں انسٹرکٹر کے طور پر تعینات کرتے ہوئے ملٹری سیکرٹری برانچ کے سربراہ سوچ و بچار اور گومگو کی کیفیت کا شکار ضرور ہوں گے لیکن میجر شبیر شریف نے کاکول کی تاریخ میں کئی نئے باب رقم کئے۔ انتہائی سخت گیر افسر ہونے کے باوجود انہوں نے زیر تربیت کیڈٹس کے دل موہ لئے۔ ان کے اندر نہ جانے کئی صلاحیتیں بیک وقت موجود تھیں۔ تربیت اور ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور کیڈٹس کا ذاتی طور پر خیال رکھنے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے تربیت یافتہ کیڈٹس اب خود عرصہ دراز پہلے فوج سے فارغ ہو چکے ہیں لیکن شبیر شریف کے دلچسپ واقعات آج تک یاد رکھے جاتے ہیں اور اکثر پرانے فوجی ان کی باتوں کے ذکر پر فرطِ جذبات سے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
1971ءکی پاک بھارت جنگ چھڑی تو شبیر شریف پی ایم اے کاکول میں تعینات تھے۔ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے وہ ایک ہی شب میں اپنی یونٹ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں پہنچ گئے۔ جو بظاہر فوجی نظم و نسق کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن شبیر شریف جنگ لڑنا چاہتے تھے۔شاید قدرت نے ان کے لئے پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز وقف کر رکھا تھا۔ 105 بریگیڈ سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں دشمن سے پنجہ آزمائی میں مصروف تھا جس کے بریگیڈ میجر کا نام میجر عبدالوحید کاکڑ تھا۔ (جو بعد ازاں چیف آف آرمی سٹاف بنے) اس بریگیڈ نے بھارت کا 86 مربع کلو میٹر علاقہ قبضے میں لے لیا تھا۔ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی بی کمپنی کی کمان میجر شبیر شریف کے ہاتھوں میں تھی۔ بھارتی فوج کسی بھی طرح سلمانکی ہیڈ ورکس کو تباہ کرنا چاہتی تھی تا کہ دریا کی دوسری جانب موجود پاکستانی فوج کو محصور کیا جا سکے۔
3 دسمبر71ءکی شب میجر شبیر شریف دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کی پروا کئے بغیر اپنے جوانوں کے ساتھ بھارتی علاقے میں گھس کر حملہ آور ہوئے۔ 47 بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ 28 بھارتی فوجی قیدی بنا کر اپنے ساتھ واپس لے آئے 4 ٹینک تباہ کرنے کے علاوہ بھارتی علاقے میں ایک اہم نہری پل پر قبضہ کر لیا۔ 3 سے 6 دسمبر کے درمیان دشمن نے پل پر قبضہ واپس لینے کے لئے 14بھرپور حملے کئے۔ میجر شبیر شریف کی زیر قیادت ان کی کمپنی نے تمام حملے پسپا کر دیئے۔ دشمن کے مورچے میں گھس کر میجر نارائن سنگھ کے ساتھ دست بدست ہو کر اس کی سٹین گن چھینی اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ اس لئے میجر شبیر شریف کو فاتح صبونہ کہا جاتا ہے۔ میجر نارائن سنگھ اور 4 جاٹ رجمنٹ پر لگنے والا یہ کاری زخم بھارتی فوج آج تک نہیں بھولی ہو گی۔ میجر نارائن سنگھ اپنے سکھ جاٹ ہونے کی للکار کیلئے مشہور تھا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو میرے سامنے آئے۔ میجر شبیر شریف اس کے مورچے میں خود کود گئے اور جھپٹ کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔
6 دسمبر کی سہ پہر کو دشمن کے ایک بڑے حملے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی بٹالین کی اینٹی ٹینک گن سے دشمن کے بڑھتے ہوئے ٹینکوں پر گولے برسا رہے تھے کہ دشمن کی فوج کی طرف سے ایک گولے نے انہیں براہ راست ہٹ(Hit) کیا اور میجر شبیر شریف نے عین حالت جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ میجر شبیر شریف کی اس بے نظیر بہادری پر ان کو نشان حیدر عطا کیا گیا۔
اور اب آئیں میجر شبیر شہید کے چھوٹے بھائی راحیل شریف کی طرف
1981ءمیں گلگت میں ایک نوجوان فوجی افسر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں بطور جی 3 تعینات تھا اور راولپنڈی سے گلگت کا بس کا سفر چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔ گلگت میں پی آئی اے کی فوکر طیارے کی آمد و رفت موسم یا دیگر عوامل کی بنیاد پر بند ہو جایا کرتی تھی۔ نوجوان فوجی افسر بالخصوص کسی آتے جاتے ہیلی کاپٹر کے انتظار میں رہتے۔ جی ایچ کیو سے ایک جنرل ہیلی کاپٹر میں گلگت آئے جن کے ساتھ عملے اور مسافروں کے علاوہ دو نوجوان افسر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پیوما ہیلی کاپٹر گلگت سے فضا میں بلند ہوا تو پتن سے پہلے ہی ہیلی کاپٹر میں فنی خرابی آ گئی۔ پائلٹ نے شاہراہ قراقرم کے قریب ہیلی کاپٹر کو بحفاظت نیچے اتار لیا۔ جونہی ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلا سب نے چھلانگیں لگا کر تیزی سے بھاگنے کو ترجیح دی۔ عقبی نشست پر دونوجوان افسروں میں سے ایک نے باہر نکل کر محفوظ مقام تک پہنچنے کا ارادہ ہی کیا تھا تو اس کے ساتھ کھڑے لحیم شحیم اور مضبوط کاٹھی کے افسر نے بازو سے پکڑ لیا اور کہا ”لالے کِتھے نس رہیاں اے (بھائی کہاں بھاگ رہے ہو) جس پر جونیئر افسر نے کہا سر دیکھتے نہیں ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ میں دھواں بھر رہا ہے جو کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتا ہے۔ سینئر نوجوان افسر بولا ”اسیں عملے نوں چھڈ کے کس طرح جا سکدے آں (ہم عملے کو چھوڑ کر کس طرح جا سکتے ہیں) جونیئر نوجوان افسر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا اور اپنی جلد بازی اور گھبراہٹ پر شرمسار ہوا۔ ہیلی کاپٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے جنرل صاحب اور دیگر مسافر شور مچا رہے تھے۔ جلدی باہر نکلو۔ لیکن سینئر نوجوان افسر ٹس سے مس نہیں ہوا اور عملے کے ساتھ اندر ہی موجود رہا۔ ہیلی کاپٹر کے وائرلیس سیٹ کی انٹینا تار کے شعلہ پکڑنے سے اٹھنے والا دھواں متبادل نظام کے فعال ہونے سے بجھ گیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ سفر کے لئے تیار ہو گیا۔ اس سینئر نوجوان کا نام جس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تھا راحیل شریف تھا۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں ….3
جنرل راحیل شریف جنہیں اُن کے بے تکلف دوست اور سینئر بالخصوص میجر شبیر شریف شہید کے پرانے ساتھی بوبی کے نام سے پکارتے ہیں۔ 16 جون 1956ءکو کوئٹہ میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے والد میجر رانا محمد شریف تعینات تھے۔ 27 نومبر 2013ءکو وہ جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن پاکستان آرمی کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے توسیع شدہ دوسرے عہد کمان کا وقت جوں جوں قریب آ رہا تھا وزیراعظم نوازشریف ماضی کے تلخ تجربوں کے باعث اعصاب شکن فیصلے کو آخری دِنوں تک مو ¿خر کرتے رہے، بالآخر اُن کی نظرِ انتخاب جنرل راحیل شریف پر پڑی، جو اُس وقت سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے، پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم، دوسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو ”سُپرسیڈ“ کرنے کی وجوہات وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے مشیران کو بہتر معلوم ہوں گی، عسکری حوالوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہارون اسلم 12 اکتوبر 1999ءکو جی ایچ کیو ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن تعینات تھے۔ اور ”بغاوت“ یا ”جوابی بغاوت“ میں اُن کا کردار کلیدی تھا، جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شاید اُنہیں ذہنی طور پر آرمی چیف نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے اُنہیں چند ماہ قبل چیف آف لاجسٹک سٹاف تعینات کر کے اِس دوڑ سے باہر کر دیا اور شنید ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وزیراعظم نوازشریف کے کان میں یہ پھونک دیا تھا کہ ہارون اسلم اُن کا متبادل نہیں ہو سکتے۔جوبعدازاں سچ ثابت ہوا، نوازشریف کابینہ کے وزیر و لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ خاران (بلوچستان) سے دوسری مرتبہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ناموافق حالات اور محدود سے ووٹوں کے باوجود ایم این اے منتخب ہو کر کابینہ میں جگہ بنا سکے تھے۔
قارئین جانتے ہی ہوں گے کہ اُنہوں نے جنرل پرویز مشرف سے بلوچستان کے معاملات پر اختلافات کی وجہ سے بطور گورنر استعفیٰ دے دیا تھا یا اُن سے لے لیا گیا تھا۔ بہرحال وہ میاں نوازشریف کے منظورِ نظر ضرور تھے۔ جنرل راحیل شریف اُن کے بطور کور کمانڈر گوجرانوالہ بطور بریگیڈیئر چیف آف سٹاف رہ چکے تھے اور کوئٹہ کور کی کمان سنبھالنے کے احکامات کے ساتھ ہی لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ نے بریگیڈیئر راحیل شریف کی خدمات طلب کر لیں۔ یوں دو مختلف کوروں کی کمان میں جنرل عبدالقادر بلوچ کی ترجیح بریگیڈیئر راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے وزیراعظم کو اُن کی بطور آرمی چیف موزونیت کی بابت آگاہ کیا ہو گا، بعض حلقے اُن کے نام کے لاحقے، شریف اور اُن کا تعلق لاہور سے ہونے کو وجہ ٹھہراتے رہے جو درست نہیں تھی۔ جنرل راحیل شریف کا بطور آرمی چیف تین سالہ نشیب و فراز سے بھرپور دور اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ وہ 29 نومبر کو باعزت طور پر عہدے سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین آرمی چیف ہیں جن سے وابستہ قوم کی توقعات پوری ہوئیں یا ادھوری رہ گئیں مورخین قلم ضرور اٹھائیں گے۔
راحیل شریف عمر میں میجر شبیر شریف سے تیرہ سال چھوٹے اور فوج میں اتنے ہی جونیئر ہیں، میجر شبیر شریف نے 1971ءکی جنگ میں جان کا نذرانہ ملک و قوم کو پیش کیا تو راحیل شریف کی عمر یہی کوئی پندرہ برس رہی ہو گی، شبیر شریف کو بہادری کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔ جب اُنہوں نے جام شہادت نوش کیا تب راحیل شریف سکول کے اختتامی سالوں میں زیر تعلیم ہوں گے۔ اِس سے قبل 1965ءکی جنگ میں لیفٹیننٹ شبیر شریف کو بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر ستارہ ¿ جرا ¿ت سے نوازا گیا تو راحیل شریف اپنے دورِ کم سنی میں ہوں گے لیکن اُن کے ذہن پر بڑے بھائی کی یادوں کے انمٹ نقش ثبت ہو چکے تھے، سپہ گری آباءکا پیشہ ہی نہیں جنون تھا، رشتے کے ماموں میجر راجا عزیز بھٹی شہید اور سگے بڑے بھائی شبیر شریف اُن کا آئیڈیل تھے، گورنمنٹ کالج لاہور جیسی مردم خیز درسگاہ سے انٹرمیڈیٹ بڑے بھائی کی تقلید میں ہی کیا اور 54 لانگ کورس کے لئے منتخب ہو گئے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں قدم رکھا تو میجر شبیر شریف کی عسکری یادوں سے نگاہیں چار ہوئی ہوں گی جنہیں پی ایم اے کاکول بطور انسپکٹر چھوڑے محض 3 برس ہوئے تھے جو جام شہادت نوش کرنے سے صرف چند روز قبل کی بات ہے۔ میجر شبیر شریف کے جونیئر کورس میٹ اور سینئر سب کی توجہ کا مرکز جینٹلمین کیڈٹ راحیل شریف کچھ زیادہ ہی مشکلات کا شکار رہے کیونکہ سینئر یا جونیئر افسر کو اُن میں شبیر شریف کی شبیہہ نظر آتی تھی، پی ایم اے کی ڈیڑھ سالہ جاںگسل تربیت کے بعد راحیل شریف کارکردگی کے لحاظ سے بڑے بھائی کے نقشِ پا نہیں چھو سکے تاہم بٹا لین سارجنٹ میجر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو اُن کی لحیم شحیم شخصیت اور گرجدار بھاری آواز کے عین مطابق تھا، مونچھیں بھی اُن کے چہرے پر خوب جچتی تھیں۔ پی ایم اے کی دو سالہ تربیت میں شاید ہی کسی اور کورس میٹ کی اتنی کھچائی ہوئی ہو گی، شبیر شریف طبعاً مہم جو اور فطری طور پر خطرات سے کھیلنے کے شوقین تھے، راحیل شریف دراز قد اور کسرتی بدن ہونے کے باوجود قدرے شرمیلے اور دھیمے مزاج کے صلح جو کیڈٹ تھے۔ بٹالین سارجنٹ میجر کے طور پر اُن کے جونیئر کی یادیں ناخوشگوار نہیں جسے عسکری حلقوں میں ”ٹھنڈا بی ایس ایم“ کہا جاتا ہے، کیونکہ روایتی طور پر یہ ایک تُنک مزاج اور سخت گیر افسر کا متقاضی ہے۔جو بلاوجہ جونیئر کیڈٹ پر گرجتا اور برستا ہے۔
میجر شبیر شریف کے دوستوں اور مداحوں کی توقعات کی طرح بہت اونچی تھیں، جینٹلمین کیڈٹ راحیل شریف کو محنت بھی زیادہ کرنا پڑی اور ڈانٹ بھی خوب کھائی، راحیل شریف کو میجر شبیر شریف کے چھوٹے بھائی کے خول سے نکلنے میں ایک دہائی تو ضرور صرف ہوئی ہو گی لیکن اُنہوں نے اپنی پہچان بالآخر بنا لی تھی، میجر شبیر شریف کا بھائی ہونے کے باعث دوران تربیت ”نقصانات“ اور بطور افسر فوائد ملی جُلی داستان ہے۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں ….4
شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہونے کے ناطے راحیل شریف کے اوپر بے پناہ دباﺅ تھا جو اُنہیں اپنا مقام بنانے میں معاون تھا۔ لیکن بیک وقت ودشوار ترین بھی۔بریگیڈیئر شوکت قادر ریٹائرڈ ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے لکھتے ہیں۔ 1961ءمیں وہ سینٹ میریز پبلک سکول میں (راولپنڈی) میں زیر تعلیم تھے، شبیر شریف سکول کے آخری سال میں اُن کے سینئر تھے، روایتی حریف سکول کے خلاف شبیر شریف اپنے سکول کی ٹیم کے کپتان تھے اور شوکت قادر جونیئر کھلاڑی، روایتی حریفوں کے درمیان ہاکی میچ سینٹ میریز نے دو کے مقابلے میں تین گول سے جیت لیا لیکن حسب سابق میچ میں تُندی و تیزی کے علاوہ لڑائی جھگڑا بھی ہوا، شائقین میں ٹیم کیپٹن شبیر شریف کے والد میجر محمد شریف بھی موجود تھے جنہوں نے فاتح ٹیم کو اپنے گھر چائے کے لئے مدعو کیا۔ بیگم و میجر شریف کا حسن سلوک اور مہمان نوازی دیدنی تھی، اُس شام سینٹ میریز کی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کی ایک پانچ سالہ بچے سے ملاقات ہوئی جس کی دلچسپی بڑے بھائی کے ہم جماعتوں سے زیادہ تین پہیوں والی سائیکل میں تھی، اس کم سن بچے کا نام راحیل شریف تھا، شوکت قادر نے شبیر شریف سے چار برسوں بعد 6 ایف ایف رجمنٹ میں ہی کمیشن لیا جس میں آٹھ سال بعد راحیل شریف نے اِس بٹالین میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ قدم رکھا۔
جنرل راحیل شریف کے دورانِ تربیت اُن کے روم میٹ کرنل ریٹائرڈ حنیف بٹ راوی ہیں کہ جب اُن کے کورس نے اکتوبر 1974ءمیں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں قدم رکھا تو اُنہیں سیکنڈ پاکستان بٹالین کی بابر کمپنی میں بھیج دیا گیا پی ایم اے کی تربیت کے ابتدائی چند روز اِس قدر حیران کن اور چکرا دینے والے ہوتے ہیں کہ کیڈٹس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہو کیا رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت سے 54 لانگ کورس کی بابر پلٹون دوچار تھی۔ ابھی ایک دوسرے سے تفصیلی تعارف کی نوبت نہیں آئی تھی ، زیادہ تر کیڈٹس کا تعلق سول پس منظر سے ہوتا ہے لیکن عسکری خاندانوں کے چند کیڈٹس بھی کورس میں شامل تھے، ایک شریف النفس نظم و ضبط کا پابند بلکہ نیم تربیت یافتہ عاجز سے لمبے تڑنگے جینٹل مین کیڈٹ کا نام راحیل شریف تھا، کئی ہفتوں تک اُن کے دیگر کورس میٹس کو یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ وہ فاتح صبونہ شبیر شریف کے برادر خورد ہیں، پی ایم اے کی انتہائی دشوار گزار تربیت کا آغاز کچھ اتنا خوشگوار نہیں ہوتا، روز و شب کے معمول میں ”رگڑا“ بنیادی عنصر ہے، کرنل حنیف بٹ کے بقول راحیل شریف نے ”رگڑا“ بھی خوب کھایا، حالانکہ انسٹریکٹر افسروں اور نان کمیشنڈ افسروں کو ہی نہیںسینئر کیڈٹس کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ راحیل شریف شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں اور کیپٹن ممتاز شریف کے بعض دوست افسر پی ایم اے ہی میں تعینات تھے پی ایم اے کی تربیت کے دوران شب و روز کو پہیہ کم از کم نہیں لگتا، ہر دن دراز اور ہر شب طویل ہوتی چلی جاتی ہے درس و تدریس، جسمانی فٹنس کی تربیت، ملٹری ڈرل، چھوٹے ہتھیاروں کی سکھلائی اور نجانے کیا کیا شامل ہوتا ہے۔
پی ایم اے کی تربیت کا لازمی ایک جزو بے رحمانہ باکسنگ مقابلہ ہے جس میں جیت ہار کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون کیسے لڑا اور اس نے اپنے حریف کا سامنا کس طرح کیا، راحیل شریف کی حتمی زور آزمائی باکسنگ رِنگ میں اُن کا حریف کے تابڑ توڑ مکوں کا سامنا کرنا اور مکے رسید کرنا آج بھی اکتالیس سال گزرنے کے باوجود اُن کے ساتھیوں کے اذہان سے محو نہیں ہوا، معلوم نہیں کس کی جیت ہوئی یا ہار لیکن راحیل شریف اور اُن کے مدِّمقابل کی باکسنگ، باﺅٹ 54لانگ کورس کی یادگار پنجہ آزمائی تھی، عینی شاہدین کہتے ہیں کہ طویل القامت اور کسرتی جسم کے مالک راحیل شریف کے مدمقابل بھی کم نہیں تھے، ایک دوسرے پر دل کھول کر مکے برسانے کے باوجود راحیل شریف کی زیر لب مسکراہٹ ویسی ہی تھی جیسی آج دیکھی جاتی ہے۔ اُن کے چہرے کے تاثرات سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اُن کے جبڑے ہل چکے ہیں اور کان سائیں سائیں کر رہے ہیں۔
راحیل شریف کی باکسنگ باﺅٹ کا تذکرہ کر ہی چکے ہیں ”یرموک‘’ نام کی ایک مشق صرف ”پانچ دن“ پر محیط ہوتی ہے جس میں باون کلو کے قریب سامان اور ذاتی ہتھیار یعنی رائفل یا لائٹ مشین گن سمیت کیڈٹس کو پانچ روز میں کوئی سوا سو میل کا سفر باپیادہ طے کرنا ہوتا ہے، جس کاآغاز ملٹری اکیڈمی کے مین گیٹ اور اختتام اُس سے ملحق گراﺅنڈ میں ہوتا ہَے، پانچ دن کی اِس جانگسل ایکسرسائز میں نالہ ڈور جِسے چھوٹا موٹا دریا کہنا مناسب ہو گا، بیچوں بیچ چلتے ہوئے ایبٹ آباد کی نواحی پہاڑی سربن ڈھاکہ کی چوٹی سے اتر کراونچی نیچی کھایوں سے گزرتے ہوئے پہلا پڑاﺅ حویلیاں ہوتا ہے، پہاڑوں، ندی، نالوں، کھیتوں، کھلیانوں، اونچی نیچی پہاڑیوںجو کاکول سے قریب 65 میل کے فاصلے پر واقع گھاٹیوں سے ہوتا ہوا حطار کے قریب پہنچ کر اختتام پذیر نہیں ہوتا….بلکہ یہ واپس اتنا ہی سفر کاکول اکیڈمی واپس آنے کے لئے طے کرنا ہوتا ہے جوکیڈٹس کی قوتِ برداشت کا شاید سب سے بڑا امتحان ہے، ایک پلٹون قریباً تیس کیڈٹس پر مشتمل ہوتی ہے جو تین سیکشن منقسم ہوتی ہے۔ ہر سیکشن کے نو کیڈٹ کے پاس ذاتی رائفل اور دسویں کیڈٹ کو مشین گن تھمائی جاتی ہے جس کا وزن قریباً دس کلو گرام سے زائد ہوتا ہے۔ مشین گن کی ساخت سے جو قارئین ناواقف ہوں اُن کے لئے یہ لکھنا ضروری ہے کہ لوہے کی اِس آہنی پُرزے کی ہئیت جسمانی طور پر مضبوط ترین کیڈٹ کو بھی تھکا دینے کے لئے کافی ہے۔
(جاری ہے)
”یرموک“ کی ابتداءسے اختتام تک پانچ روز مسلسل اور 125 میل کا فاصلہ راحیل شریف نے مشین گن کاندھے پر رکھ کرتن تنہا طے کیا، ویسے تو اِس طرح کے کردار ہر کورس میں موجود ہوتے ہیں لیکن ہائی لانگ کورس کے جن کیڈٹس نے یہ کارنامہ انجام دیا اُن میں راحیل شریف بھی شامل تھے، طلوع آفتاب سے شروع ہونے والا سفر بعض اوقات غروب آفتاب تک بھی جاری رہتا، آبلہ پا کیڈٹس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ٹیم پر سدا باون کلو گرام وزن تو ہر حال میں اُٹھاتا ہی ہے کسی طور ایل ایم جی سے جان چھوٹ جائے، جو کندھوں کے لئے الگ وبال جان سمجھی جاتی ہے۔ ایل ایم جی توجیسے راحیل شریف کے ساتھ چپک ہی گئی ہو البتہ دوپہر کے آرام میں بے اختیار اُن کے منہ سے نکل جاتا ”ایل ایم جی اُٹھانے کے لئے میں ہی رہ گیا ہوں“ لیکن پانچ روز مسلسل ایل ایم جی اُٹھانے کا ریکارڈ اپنے نام لکھوا لیا، ڈیڑھ سالہ تربیت کے بعد جسمانی طور پر مضبوط پی ایم اے کے کیڈٹس کے لئے ”پیرا ٹروپنگ“ یعنی ہوائی جہاز سے چھلانگیں لگانے والے کورس کے لئے منتخب ہوئے اکا دکا کیڈٹس کو چھوڑ کر قریباً سب کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ وردی پر نیلا ونگ کے باعث کشش ہوتا ہے۔ محدود نشستوں کی وجہ سے قریباً تین چوتھائی کورس ہی پیرا ونگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔جس کے لئے اعلیٰ درجے کی فزیکل فٹنس لازم ہے۔ راحیل شریف اس میں کامیاب نہ رہے، ہائی لانگ کورس بحیثیت مجموعی ایم اے کی تاریخ کا ”پنگے باز کورس“ نہیں ہے، راحیل شریف کسی پنگے بازی میں براہ راست حصہ نہ لے کر ہی کورس کی مجمووعی سزا کے حقدار رہے۔ شرارتی کورس میٹس سے شکوہ کیا نہ کبھی ماتھے پر شکن آئی، دوسروں کے لئے کی سزا بھی خندہ پیشانی سے قبول کی۔
عسکری زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی اُنہیں مضبوط کردار اور آہنی اعصاب کا مالک سمجھا جاتا ہے، فولادی عزم کے حامل راحیل شریف کو پی ایم اے کاکول سے اُن کے شہید برادر محترم کی 6 ایف ایف رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تعینات کیا گیا تو اُن کی عمر 20 برس سے چند ماہ ہی زیادہ تھی، درخشاں عسکری تاریخ کی حامل 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے نوجوان افسر سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف نے ابتدائی سروس میں پیشہ وارانہ کورسز امتیاز سے پاس کئے لیکن اُنہیں راحیل شریف سمجھنے کی بجائے شبیر شریف کا برادرخورد ہی سمجھا جاتا رہا، شبیر شریف کے علاوہ اُن کے دوسرے بڑے بھائی کیپٹن ممتاز شریف جنہوں نے بطور کیپٹن فوج سے بعض وجوہات کی بنا پرا ستعفیٰ دے دیا تھا، کا شمار بھی بہادر فوجی افسروں میں ہوتا تھا جنہیں ستارہ ¿ بسالت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے تو یونٹ کا ہراول دستہ اندرون بلوچستان تین سال کی بلوچوں کی باغیانہ کارروائیوں کے خلاف پوری کر کے پشاور پہنچ رہا تھا، تین چوتھائی یونٹ اور کمانڈنگ آفیسر تین ماہ بعد پشاور پہنچے، اُن کے اولین کمپنی کمانڈر میجر شوکت قادر بعد ازاں بریگیڈیئر لکھتے ہیں۔
”میں میجر شبیر شریف کا سکول میں جونیئر تھا لیکن میرے اُن سے خاندانی مراسم تھے، اِس ناطے سے میں راحیل شریف کو دورِ کم سنی سے ہی جانتا تھا۔( تاہم میں راحیل شریف کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ دیکھ کر ازحد حیران ہوا جو اپنے شہید بھائی سے بالکل متضاد تھے۔“
شبیر شریف جلد باز اور ’بلند‘ لہجے میں بات کرنے والے بھڑکیلے جارحانہ انداز کی حامل شخصیت اور خطرات کو ہمیشہ خود دعوت دیتے تھے۔ اُس کے برعکس راحیل شریف نرم خو، حد درجہ محنتی ہونے کے علاوہ مو ¿دب اور بااخلاق، مصیبت کو کبھی گلے نہیں لگایا، لیکن شبیر شریف سے کم مو ¿ثر نہیں تھے۔ شبیر شریف کی طرح ہی 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے جوانوں، سردار صاحبان اور افسروں میں یکساں مقبول جو اُن کی اس لئے بھی عزت و تکریم کرتے تھے کہ وہ شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ راحیل شریف کو متضاد شخصیت کے باعث اپنا مقام پیدا کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا، لیکن اُنہوں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھورا، عسکری پس منظر نہ سمجھنے والے قارئین کے لئے لکھا چاہ رہا ہوں کہ راحیل شریف کی رجمنٹ کے سپاہ کو اُن کی شکل میں شبیر شریف میسر تھے اور اُن سے ویسی ہی توقعات وابستہ تھیں، عام سپاہی عمومی طور پر جارحانہ رویہ پسند کرتے ہیں، راحیل شریف نے اپنے ملٹری دور کا آغاز انتہائی شاندار طریقے سے کیا اور ابتدائی چار سال سروس کے بعد گلگت میں موجود انفنٹری بریگیڈ کے گریڈ 3 آفیسر کے طور پر منتخب کیا جانا ازخود تابندہ اور روشن مستقبل کی ابتدا تھی اُن کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں نہایت اعلیٰ اور پیشہ وارانہ کورسز میں کارکردگی ارفع تھی، جو اُن کی چالیس سالہ عسکری خدمات کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ اُنہیں جرمنی میں کمپنی کمانڈر کورس کے لئے منتخب کیا گیا جو اُن کے لئے باعثِ اعزاز تھا
جنرل راحیل شریف کی یادیں -5
”یرموک“ کی ابتداءسے اختتام تک پانچ روز مسلسل اور 125 میل کا فاصلہ راحیل شریف نے مشین گن کاندھے پر رکھ کرتن تنہا طے کیا، ویسے تو اِس طرح کے کردار ہر کورس میں موجود ہوتے ہیں لیکن 54 لانگ کورس کے جن کیڈٹس نے یہ کارنامہ انجام دیا اُن میں راحیل شریف بھی شامل تھے، طلوع آفتاب سے شروع ہونے والا سفر بعض اوقات غروب آفتاب کے بعدتک بھی جاری رہتا، آبلہ پا کیڈٹس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پیٹھ پر باون کلو گرام وزن تو ہر حال میں اُٹھانا ہی ہوتاہے کسی طورلائٹ مشین گن سے جان چھوٹ جائے، جو کندھوں کے لئے الگ وبال جان سمجھی جاتی ہے۔ ایل ایم جی توجیسے راحیل شریف کے ساتھ چپک ہی گئی ہو البتہ دوپہر کے آرام میں بے اختیار اُن کے منہ سے نکل جاتا ”ایل ایم جی اُٹھانے کے لئے میں ہی رہ گیا ہوں“ لیکن پانچ روز مسلسل ایل ایم جی اُٹھانے کا ریکارڈ اپنے نام لکھوا لیا، ڈیڑھ سالہ تربیت کے بعد جسمانی طور پر مضبوط پی ایم اے کے کیڈٹس کے لئے ”پیرا ٹروپنگ“ یعنی ہوائی جہاز سے چھلانگیں لگانے والے کورس کے لئے منتخب ہوئے اکا دکا کیڈٹس کو چھوڑ کر قریباً سب کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ وردی پر نیلا ونگ کے باعث کشش ہوتا ہے۔ محدود نشستوں کی وجہ سے قریباً تین چوتھائی کورس ہی پیرا ونگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔جس کے لئے اعلیٰ درجے کی فزیکل فٹنس درکارہوتی ہے۔ راحیل شریف اس میں بھی کامیاب رہے، 54لانگ کورس بحیثیت مجموعی پی ایم اے کی تاریخ کا ”پنگے باز کورس“ سمجھا جاتا ہے، راحیل شریف کسی ”پنگے بازی“ میں براہ راست حصہ نہ لے کر بھی کورس کی مجموعی سزا کے حقدار رہے۔ شرارتی کورس میٹس سے شکوہ کیا نہ کبھی ماتھے پر شکن آئی، دوسروں کے کیے کی سزا بھی خندہ پیشانی سے قبول کی۔
عسکری زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی اُنہیں مضبوط کردار اور آہنی اعصاب کا مالک سمجھا جاتا ہے، فولادی عزم کے حامل راحیل شریف کو پی ایم اے کاکول سے اُن کے شہید برادر محترم کی 6 ایف ایف رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تعینات کیا گیا تو اُن کی عمر 20 برس سے چند ماہ ہی زیادہ تھی، درخشاں عسکری تاریخ کی حامل 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے نوجوان افسر سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف نے ابتدائی سروس میں پیشہ وارانہ کورسز امتیاز سے پاس کئے لیکن اُنہیں راحیل شریف سمجھنے کی بجائے شبیر شریف کا برادرخورد ہی سمجھا جاتا رہا، شبیر شریف کے علاوہ اُن کے دوسرے بڑے بھائی کیپٹن ممتاز شریف جنہوں نے بطور کیپٹن فوج سے بعض طبی وجوہات کی بنا پرا ستعفیٰ دے دیا تھا، کا شمار بھی بہادر فوجی افسروں میں ہوتا تھا جنہیں ستارہ ¿ بسالت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے تو یونٹ کا ہراول دستہ اندرون بلوچستان تین سال کی بلوچوں کی باغیانہ کارروائیوں کے خلاف مدت پوری کر کے پشاور پہنچ رہا تھا، تین چوتھائی یونٹ اور کمانڈنگ آفیسر تین ماہ بعد پشاور پہنچے، اُن کے اولین کمپنی کمانڈر میجر شوکت قادر بعد ازاں بریگیڈیئر لکھتے ہیں۔
”میں میجر شبیر شریف کا سکول میں جونیئر تھالیکن میرے اُن سے خاندانی مراسم تھے( جس کاذکر گزشتہ قسط میں آچکاہے ) اِس ناطے سے میں راحیل شریف کو دورِ کم سنی سے ہی جانتا تھا۔ تاہم میں راحیل شریف کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ دیکھ کر ازحد حیران ہوا جو اپنے شہید بھائی سے بالکل متضاد تھے۔“
شبیر شریف جلد باز اور ’بلند‘ لہجے میں بات کرنے والے بھڑکیلے جارحانہ انداز کی حامل شخصیت اور خطرات کو ہمیشہ خود دعوت دیتے تھے۔ اُس کے برعکس راحیل شریف نرم خو، حد درجہ محنتی ہونے کے علاوہ مو ¿دب اور بااخلاق، مصیبت کو کبھی گلے نہیں لگایا، لیکن شبیر شریف سے کم مو ¿ثر نہیں تھے۔ شبیر شریف کی طرح ہی 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے جوانوں، سردار صاحبان اور افسروں میں یکساں مقبول جو اُن کی اس لئے بھی عزت و تکریم کرتے تھے کہ وہ شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ راحیل شریف کو متضاد شخصیت کے باعث اپنا مقام پیدا کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا، لیکن اُنہوں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھورا، عسکری پس منظر نہ سمجھنے والے قارئین کے لئے لکھنا چاہ رہے ہیں کہ راحیل شریف کی رجمنٹ کے سپاہ کو اُن کی شکل میں شبیر شریف میسر تھے اور اُن سے ویسی ہی توقعات وابستہ تھیں، عام سپاہی عمومی طور پر جارحانہ رویہ پسند کرتے ہیں، راحیل شریف نے اپنے ملٹری دور کا آغاز انتہائی شاندار طریقے سے کیا اور ابتدائی چار سال سروس کے بعد گلگت میں موجود انفنٹری بریگیڈ کے گریڈ 3 آفیسر کے طور پر منتخب کیا جانا ازخود تابندہ و روشن مستقبل کی ابتدا تھی اُن کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں نہایت اعلیٰ اور پیشہ وارانہ کورسز میں کارکردگی ارفع تھی، جو اُن کی چالیس سالہ عسکری خدمات کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ انہوں نے ابتدائی پیشہ ورانہ کورسزامتیازاوراعلیٰ پوزیشنوں سے پاس کیے جس کی وجہ سے ان کی اولین تعیناتی بطورجی تھری انفنٹری بریگیڈ ہوئی۔اُنہیں جرمنی میں کمپنی کمانڈر کورس کے لئے منتخب کیا گیا جو اُن کے لئے باعثِ اعزاز تھااور اُنہیں اُن کے ہم عصر بہترین کپتانوں میں ممتاز کرتا تھا، اِس بنا پر اُنہیں نوجوان افسروں کی بنیادی تربیت کا ”سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹس کوئٹہ“ میں درس و تدریس کے لئے منتخب کیا گیا، راحیل شریف میجر کے عہدے پر ترقی پا کر اپنی اولین ذمہ داری بطور کمپنی کمانڈر نبھا رہے تھے کہ اُنہیں اُن کے مادرِ علمی پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ایڈجوٹنٹ کے پُروقار عہدے کے لئے منتخب کر لیا گیا جس نے اُنہیں بری فوج میں ایک جداگانہ اہمیت کا حامل بنا دیا۔
80ءکی دہائی میں پی ایم اے میں دو بٹالین تھیں اور ایڈجوٹنٹ منتخب ہونا میجر رینک کے حامل افسران کا منفرد اعزاز جن کی تعداد صرف درجنوں تک محدود ہو گی، اُس وقت پی ایم اے میں زیر تربیت تمام کیڈٹس کی نگاہیں وجیہہ، خوبرو اور دلکش شخصیت راحیل شریف کی طرف اُٹھتی تھیں تو اُنہیں ایڈجوٹنٹ ہونے کے علاوہ میجر شبیر شریف شہید ستارہ ¿ جرا ¿ت و نشان حیدر کا بھائی سمجھتے تھے راحیل شریف کو اِس بات کا بخوبی ادراک تھا، طبعاً نرم خُو اور خوش گفتار راحیل شریف کے لئے دو سال کسی امتحان سے کم نہ تھے۔ ایک طرف اُنہیں ملٹری اکیڈمی کا نظم و ضبط قائم رکھنا تھا اور دوسری طرف اہم پیشہ ورانہ کورس سٹاف کالج کے لئے تیاری کرنا تھی، راحیل شریف دونوں امتحانوں میں سُرخرو ہوئے، ملٹری اکیڈمی میں دو سالہ ناقابل فراموش یادیں چھوڑ کر یونٹ واپس پہنچے تو نوجوان افسروں کی بڑی تعداد اُن کی مداح ہو چکی تھی۔ 1988ءمیں 6 ایف ایف رجمنٹ ایک بار پھر پشاور چھاﺅنی میں موجود تھی، راحیل شریف بطور میجر کمپنی کمانڈر کے فرائض انجام دے رہے تھے اُن کے طالع بخت والد میجر رانا محمد شریف پشاور تشریف لائے جو اُس وقت پنجاب ریسلنگ ایسوسی ایشن کے عہدیدار تھے، کیپٹن موسیٰ خان خٹک بعد ازاں لیفٹیننٹ کرنل جو خود 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات تھے راوی ہیں کہ ”میجر ریٹائرڈ رانا محمد شریف کھیلوں کے دلدادہ، بالخصوص فن کشتی کے لئے تادم آخر متحرک رہے‘ پشاور چھاﺅنی سے وابستہ یادِ ماضی افسروں سے بیان کرتے رہتے بالخصوص پشاور چھاﺅنی اور گردونواح میں تاریخی اہمیت کی حامل نصب تختیوںاور کتبوں کی بابت مفصل گفتگو اور معلومات سے آگاہ کرتے تھے۔ ہر باپ کی طرح اُنہیں بھی اپنے تیسرے بیٹے سے بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں -6
میجر راحیل شریف کے بارے میں اُن کے والد نے کیپٹن موسیٰ خان کے سامنے ایک محیرالعقول پیش گوئی کی کہ راحیل شریف چیف آف آرمی سٹاف بنے گا، شہید شبیر شریف اور غازی ممتاز شریف کے والد رانا محمد شریف کی یہ پیش گوئی 25 برس بعد حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی، کیپٹن موسیٰ خان ہر فوجی کی طرح اُن کے خاندان کی لازوال قربانیوں اور عسکری خدمات کے معترف تھے لیکن یہ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ میجر رانا محمد شریف کے لبوں سے نکلی ہوئی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہو گی ستارہ بخت باپ کی یہی خواہش خوش نصیب ماں کی دُعا بن گئی جسے ربِ لم یزل نے شرفِ قبولیت بخشا۔
شریف النفس راحیل شریف کا تکیہ کلام ”لالہ“ ہے عام طور پر افواج پاکستان میں کمیشن حاصل کرنے والے افسران نچلے عہدوں پر فائز اپنے عزیز و اقرباءسے شناسائی تک کا اظہار نہیں کرتے لیکن میجر راحیل شریف میں احساس کمتری نام کی کوئی منفی سوچ سرے سے ہی موجود نہیں تھی۔
اُنہیں اِس بات پر بھی فخر تھا کہ اُن کے والد نے بطور سپاہی فوج میں ملازمت کا آغاز کیا اور رشتے کے ماموں میجر عزیز بھٹی ایئرفورس میں ایئرمین کی حیثیت سے شامل ہونے کے بعد ہی بری فوج میں افسری کا زینہ چڑھے۔ افسران کی اکثریت جنہیں سینئر عہدوں پر پہنچنے کا شائبہ بھی ہو وہ ماتحت رشتہ داروں سے دماغی اور جسمانی فاصلہ پیدا کر لیتے ہیں۔ راحیل شریف کو ایسا تکبر چھو کر بھی نہیں گزرا۔
راحیل شریف پیشہ ورانہ فوجی زندگی کے مدارج طے کرنے لگے۔ کینیڈا سٹاف کالج کے لئے منتخب ہوئے تو ان کا شمار یقینا چند گنے چنے افسران میں ہوا۔ کمانڈاینڈ سٹاف کالج کینیڈا سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کی اولین تعیناتی بطور انفنٹری بریگیڈ میجر ”تھر “اور راجستھان کے بارڈر پر صحرائی علاقے چھور میں ہوئی ،ثانیاًاوکاڑہ چھاﺅنی میں موجود انفنٹری بریگیڈ میجر تعینات کیا جانا ان کی مہارت اور مشاقی کامظہر ہے ۔اس وقت ا ن کے محسن ومربی جنرل پرویزمشرف جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے ۔جنرل پرویز مشرف سے تیس سالہ برادرانہ روابط کے باوجود کبھی حد ادب سے تجاوز کیا نہ ان سے کسی قسم کی رعایت طلب کی ۔میجر رینک کے کسی بھی افسر کے لئے انفنٹری بریگیڈ میں بریگیڈ میجر کے طور پر تعیناتی ترقی کے زینے کی اولین سیڑھی ہے جس پر انہوں نے قدم رکھا تو ا ن کا شمار بری فوج کے گنے چنے افسران میں ہونے لگا ۔
اپنی پیشہ وارانہ صلاحیت ،لگن اور خلوص کی بنا پر حددرجہ بہترین سالانہ رپورٹ کے حقدار ٹھہرے ،اس دور میں انہیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی اسی عہدے پر ترقی پاکر انہوں نے دوانفنٹری بٹالین کی کمانڈ کی جس میں ان کی بنیادی یونٹ 6ایف ایف رجمنٹ اور 26ایف ایف رجمنٹ شامل ہیں بطور لیفٹیننٹ کرنل نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے آرمڈ فورسز وار کو رس کے لئے منتخب کیا جانا ترقی کے مزید زینے چڑھنے کی نوید تھی ،6فرنٹیئر فورس رجمنٹ ،لائن آف کنٹرول کے اس پار آزاد کشمیر کے علاقہ باغ میں تعینات تھی ،کسی بھی افسر کے لئے اپنی بنیادی رجمنٹ کی کمان اعزازہی نہیں جذباتی وابستگی سے بھر پور ہو تی ہے ،” شیروڈنا“ کے دیوقامت پہاڑ اور سروقد جنگل لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف سے ناآشنا نہیں تھے ،لائن آف کنٹرول کے اس پار بارڈر سکیورٹی فورس اور باقاعدہ بھارتی فوج جنگی یونٹ بھی لاعلم نہیں تھی کہ مقبوضہ اور آزادکشمیر کی خونی لکیر کے اس پار فاتح صبونہ شبیر شریف کی رجمنٹ مورچہ زن ہے اور اس کی کمان ان کے چھوٹے بھائی راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے ۔بطور لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف دوسری مرتبہ سیالکوٹ میں تعینات ہوئے ،انہیں 26فرنٹیئر فورس کی کما ن سونپی گئی ،تب تک جنرل پرویز مشرف اقتدار سنبھال کرملک کے چیف ایگزیکٹو بن چکے تھے ۔
ملٹری مانیٹرنگ سسٹم کا دور دورہ تھا ،گوجرانوالہ کے کچھ نوسر باز قسم کے تاجروں نے کسی آسٹریلین کمپنی سے معقول رقم ہتھیا لی تھی اور قریباً روپوش تھے آسٹریلین ہائی کمیشن اسلام آباد از حد کوششوں کے باوجود رقم کی واپسی نہیں کروا سکا ،کبھی سرخ فیتہ آڑے آجاتا اور کبھی گوجرانوالہ پولیس کی نااہلی ،کیونکہ پاکستانی فرم جعل سازوں کے ذہن کی اختراع تھی ،آسٹریلین ہائی کمیشن نے وزارت داخلہ کے ذریعے جی ایچ کیو سے استد عاکی کہ تدبیر کی جائے کیونکہ پولیس تو ان ملزموں کاسراغ لگانے میں ناکام رہی تھی ،اس فراڈ کیس کی باز گشت آسٹریلیا میں بھی سنائی دینے لگی ۔ترقی یافتہ ممالک کے بھی اپنے مفادات ہو تے ہیں جب پاکستان نے مئی 1998ءمیں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکہ کیا تو آسٹریلین سٹاف کورس میں زیر تربیت پاکستانی فوجی افسران کو آناً فاناًکورس سے خارج کرکے ملک بدری کے احکامات دے دئیے لیکن ملٹری حکومت میں اپنے شہریوں کی ڈوبی ہوئی رقم واگزار کروانے کے لئے فوج کا سہارا ہی لیا ،لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کورکمانڈر گوجرانوالہ کے بااعتماد ماتحت تھے اور لیفٹیننٹ کرنل آغا جہانگیر علی خان کو ان کی ایمانداری پر پورا یقین تھا کہ نہ تو لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف کے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ آسٹریلین کرنسی کی چکا چوند ان کی آنکھوں کو خیرہ کر پائے گی ۔لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف نے ان کے اس یقین پرتصدیق کی مہر ثبت کر تے ہوئے پولیس کی مدد اور اپنی ذاتی نگرانی سے پاکستانی تاجروں کا کھوج لگایا او ر ا ن سے زرکثیر برآمد کروا کرحکومتی ذریعہ سے آسٹریلین ہائی کمیشن کے حوالے کیا۔
لگے ہاتھوں ایمن آباد میں ایک جعلی پیر کاتذکرہ بھی کرتے چلےں، کسی بہروپیے نے عامل کا سوانگ رچا کر عوام کی ایک کثیر تعدا د کو اپنے سحر میں جکڑ رکھاتھا اور اسے سیاسی پشت پناہی بھی حاصل تھی اس کی اخلاق باختہ سر گرمیاں جاری تھیں اور مذموم مقاصد کے لئے خواتین کا استحصال کرنے سے بھی نہیں چوکتا تھا۔
ضیا شاہد
قارئین محترم! آیئے کچھ باتیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بارے میں ہو جائیں جنہیں 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہو کر گھر جانا ہے لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہَے کہ پورے ملک میں عوام کی اکثریت کے دِل میں یہ خیال موجود ہَے کہ شاید عین وقت پر دہشت گردی کے خلاف بھرپور کامیابی حاصل کرنے اور اپنے تین سالہ دَور میں ملک بھر کے اندر جس جگہ لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچی، حادثہ ہوا، زلزلہ آیا، قحط کی شکل پیدا ہوئی، کوئی قدرتی ناگہانی آفت آئی تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سب سے پہلے وہاں پہنچ کر صورتِ حال کو سنبھالا اور پاک فوج نے اُن کی سربراہی میں مصیبت زدگان کی بھرپور امداد کی۔ یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو مختلف ٹی وی چینلز یہ خبریں نشر کر رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں، پھر بھی ہر دوسرے تیسرے شخص کے دِل میں جنرل راحیل شریف کے لئے محبت اوراحترام موجود ہے کہ وہ چلے گئے تو بھی پاکستانی عوام ہمیشہ اُنہیں یاد رکھے گی۔
آیئے ایک نظر جنرل راحیل شریف کی زندگی اور حالاتِ زندگی پر ڈالیں۔
18 ویں صدی کے وسط یعنی 1840ءمیں ایک کشمیری راجپوت خاندان گجرات کے نواحی قصبے کنجاہ میں آ کر آباد ہوا۔ ان کے آباﺅ اجداد کا پیشہ سپہ گری اور تجارت تھا۔ مہتاب دین نام کے کشمیری راجپوت کا دو منزلہ مکان کسمپرسی کی حالت میں آج بھی کوچہ مہتاب دین کنجاہ میں موجود ہے۔ رانا مہتاب دین کے ہاں محمد شریف نامی بچے نے جنم لیا۔ یہ انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے۔ محمد شریف کی وفات آج سے پانچ سال قبل لاہور میں ہوئی۔ محمد شریف اپنے آبا ﺅ اجداد کی تقلید میں برٹش آرمی کی رائل کور آف سگنلز میں بھرتی ہوئے۔ انہیں بعد ازاں کمیشن آفیسر کے طور پر منتخب کر لیا گیا، جو قیام پاکستان کے بعد بھی تادیر افواج پاکستان میں خدمات انجام دیتے رہے اور بطور میجر آرمی سے ریٹائر ہوئے۔
محمد شریف کے بڑے بیٹے شبیر شریف 28 اپریل 1943ءکو کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ بیگم محمد شریف کا تعلق گجرات کی تحصیل کھاریاں کے قصبہ لادیاں کے کشمیری خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کے ایک سپوت میجر راجہ عزیز بھٹی کو 65ءکی پاک بھارت جنگ میں بے مثل بہادری پر بعد از شہادت سب سے بڑا فوجی اعزاز ”نشان حیدر“ عطا کیا گیا۔
کنجاہ قصبے میں اب شاذ ہی کوئی عمر رسیدہ شخص ہو جس نے جنرل راحیل شریف کے والد یا ان کے بیٹوں کو خود دیکھا ہو گا۔ میجر محمد شریف کمیشن ملنے کے بعد کنجاہ سے نقل مکانی کر کے مختلف چھاﺅنیوں سے ہوتے ہوئے بالآخر گلبرگ لاہور میں مقیم ہوئے۔ کنجاہ کے مکان کی حالت زار اور دروازے پر لگے ہوئے تالے کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس خاندان نے دوبارہ اپنے آبائی شہر سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔
میجر شبیر شہید نشان حیدر کے نام پر ہیلتھ سنٹر کی شکل میں ایک چھوٹا سا ہسپتال کنجاہ میں آج بھی موجود ہے۔
میجر محمد شریف نے اپنے قصبے کے متعدد لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دی۔ حاجی عبدالغنی اس نسل کے آخری فرد ہیں جو آج بھی حیات ہیں ان کے مطابق گزشتہ برس جنرل راحیل شریف کی والدہ کی وفات پر اہلیان کنجاہ تعزیت کے لئے جنرل راحیل شریف کے پاس گئے تو انہوں نے دیہی ہیلتھ سنٹر کی بدحالی کا شکوہ کیا۔ جنرل راحیل شریف نے فوراً ہی وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ اِس طرف مبذول کروانے کے لئے فون پر گفتگو کی۔ اہلیان کنجاہ نے جنرل راحیل شریف کو بچپن یا عہد شباب میں بھی نہیں دیکھا نہ بہت سے لوگوں کو ان سے کبھی ملاقات کا موقع ملا۔ لیکن فوج سے ریٹائر ہونے والے حاجی عبدالغنی کہتے ہیں کہ میجر شریف نے اپنے عزیز و اقربا ہی نہیں اہل علاقہ کی خدمت کو ہمیشہ مقدم جانا لیکن وہ خود کنجاہ کبھی کبھار ہی آئے۔ جنرل راحیل شریف بھی کنجاہ اور گردونواح کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ 50 ہزار آبادی کے تنگ و تاریک گلیوں والے پرانے شہر کی ترقی اور دیگر سہولیات کا خیال کسی کو نہیں آیا اور آج بھی یہ ٹاﺅن اسی حال میں ہے۔
میجر محمد شریف کے بیٹے شبیر شریف، کیپٹن ممتاز شریف اور جنرل راحیل شریف ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میجر راجہ عزیز بھٹی (نشان حیدر) جنرل راحیل شریف کے سگے ماموں تھے اور سماجی رابطے کے ذرائع پر ان کے چاہنے والے پوری شد و مد سے یہی ثابت کرتے رہے ہیں مگر حقیقت میں راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا تعلق ان کے ننھیالی خاندان سے ضرور تھا مگر وہ ان کے ماموں نہیں تھے۔
1971ءکی جنگ میں جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف کے جسد خاکی کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا، جو شاید اس طرح کی واحد مثال ہے کیونکہ شہید کے ایک دوست کی آخرت سنوارنے کی وصیت خود شبیر شہید نے کی تھی اِن کے دوست تنویر احمد خاں نے عین عالم شباب میں خود کشی کر لی تھی جس کا میجر شبیر شریف کو بہت رنج تھا۔ اس لئے انہوں نے ایک عالم سے فتویٰ لیا کہ میرے مرحوم دوست تنویر کی بخشش کیسے ہو سکتی ہے۔ عالم نے کہا کہ اگر اس کی قبر کے ساتھ کوئی شہید دفن ہو جائے تو تنویر کی بخشش بھی ہو جائے گی۔ شبیر شریف اپنی زندگی میں ہی والدہ محترمہ کو ساتھ لے کر میانی صاحب قبرستان گئے اور انہیں تنویر صاحب کی قبر دکھائی اور خواہش ظاہر کی کہ اگرمیں شہید ہو کر آﺅں تو مجھے اس قبر کے ساتھ دفن کیا جائے۔
جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف جنہیں فوج میں رانا شبیر شریف کے نام سے پکارا جاتا تھا، 1964ءمیں 19 اپریل کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے اعزازی شمشیر کے ساتھ پاس آﺅٹ ہوئے اور 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ انہیں تعینات کیا گیا۔ پی ایم اے کاکول میں انہیں اپنے کورس میں اول پوزیشن حاصل ہوئی جس کی بنا پر انہیں بٹالین سینٹر انڈر آفیسر کا عہدہ دیا گیا جو کسی بھی جنٹلمین کیڈٹ کا خواب ہوتا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جنرل (اور بعد ازاں صدر) پرویز مشرف بٹالین جونیئر انڈر آفیسر کے طور پر شبیر شریف کے نائب کے عہدے پر 6 ماہ فائز رہے۔ لیفٹیننٹ شبیر شریف کو 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں تیسرے بڑے فوجی اعزاز ستارہ جرا ¿ت سے نوازا گیا، جو ازخود ان کی بہادری اور دلیرانہ شخصیت کا عکاس ہے۔ دشمن کے نرغے میں رہ جانے والی پاکستانی فوجی گاڑی کو دو جانفروش ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کی برستی ہوئی فائرنگ سے نکال کر لانے والے شبیر شریف کو اسی وجہ سے اعزاز سے نوازا گیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہماری فوجی گاڑی کو بھارتی افواج اپنی کامیابی و کامرانی کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکیں۔
(جاری ہے)
شبیرشریف فطرتاً نڈر اور مہم جو شخصیت کے مالک تھے۔ فوج کے چھوٹے موٹے نظم و ضبط کو پس پشت ڈالنا ان کا معمول تھا۔ اس کے باوجود ان کی نصابی سرگرمیاں اور پیشہ ورانہ کورسز میں پوزیشن صف اول کی رہی۔ ہیوی موٹر سائیکل چلانے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ابتدائی پیشہ ورانہ کورس کے لئے ہیوی موٹر سائیکل پر لاہور سے کوئٹہ اور واپسی کا سفر ان کی زندگی کی دلچسپ داستان ہے اسی سفر میں موٹر سائیکل سے گر کر شبیر شریف کو اچھی خاصی چوٹیں لگیں مگر اپنے والدین اور اعلیٰ افسروں کو پتہ نہیں چلنے دیا اپنی ابتدائی سروس میں جنگجویانہ فطرت اور مہم جوئی کے ہاتھوں اکثر و بیشتر جسمانی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار رہے مگر عسکری لگن کو اپنائے رکھا۔ سینئر عسکری کمان ان کے بعض اقدامات سے خفا بھی ہو جاتی تھی لیکن 65 ءکی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ شبیر شریف کی ولولہ انگیز کارکردگی نے تادیبی کارروائی کی بجائے انہیں ستارہ جرا ¿ت کا حقدار ٹھہرایا جسے کوئی بھی نوجوان افسر احساس تفاخر سے اپنے سینے پر سجانا چاہے گا۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جنگی کارکردگی کی بنا پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں انسٹرکٹر کے طور پر تعینات کرتے ہوئے ملٹری سیکرٹری برانچ کے سربراہ سوچ و بچار اور گومگو کی کیفیت کا شکار ضرور ہوں گے لیکن میجر شبیر شریف نے کاکول کی تاریخ میں کئی نئے باب رقم کئے۔ انتہائی سخت گیر افسر ہونے کے باوجود انہوں نے زیر تربیت کیڈٹس کے دل موہ لئے۔ ان کے اندر نہ جانے کئی صلاحیتیں بیک وقت موجود تھیں۔ تربیت اور ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور کیڈٹس کا ذاتی طور پر خیال رکھنے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے تربیت یافتہ کیڈٹس اب خود عرصہ دراز پہلے فوج سے فارغ ہو چکے ہیں لیکن شبیر شریف کے دلچسپ واقعات آج تک یاد رکھے جاتے ہیں اور اکثر پرانے فوجی ان کی باتوں کے ذکر پر فرطِ جذبات سے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
1971ءکی پاک بھارت جنگ چھڑی تو شبیر شریف پی ایم اے کاکول میں تعینات تھے۔ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے وہ ایک ہی شب میں اپنی یونٹ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں پہنچ گئے۔ جو بظاہر فوجی نظم و نسق کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن شبیر شریف جنگ لڑنا چاہتے تھے۔شاید قدرت نے ان کے لئے پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز وقف کر رکھا تھا۔ 105 بریگیڈ سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں دشمن سے پنجہ آزمائی میں مصروف تھا جس کے بریگیڈ میجر کا نام میجر عبدالوحید کاکڑ تھا۔ (جو بعد ازاں چیف آف آرمی سٹاف بنے) اس بریگیڈ نے بھارت کا 86 مربع کلو میٹر علاقہ قبضے میں لے لیا تھا۔ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی بی کمپنی کی کمان میجر شبیر شریف کے ہاتھوں میں تھی۔ بھارتی فوج کسی بھی طرح سلمانکی ہیڈ ورکس کو تباہ کرنا چاہتی تھی تا کہ دریا کی دوسری جانب موجود پاکستانی فوج کو محصور کیا جا سکے۔
3 دسمبر71ءکی شب میجر شبیر شریف دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کی پروا کئے بغیر اپنے جوانوں کے ساتھ بھارتی علاقے میں گھس کر حملہ آور ہوئے۔ 47 بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ 28 بھارتی فوجی قیدی بنا کر اپنے ساتھ واپس لے آئے 4 ٹینک تباہ کرنے کے علاوہ بھارتی علاقے میں ایک اہم نہری پل پر قبضہ کر لیا۔ 3 سے 6 دسمبر کے درمیان دشمن نے پل پر قبضہ واپس لینے کے لئے 14بھرپور حملے کئے۔ میجر شبیر شریف کی زیر قیادت ان کی کمپنی نے تمام حملے پسپا کر دیئے۔ دشمن کے مورچے میں گھس کر میجر نارائن سنگھ کے ساتھ دست بدست ہو کر اس کی سٹین گن چھینی اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ اس لئے میجر شبیر شریف کو فاتح صبونہ کہا جاتا ہے۔ میجر نارائن سنگھ اور 4 جاٹ رجمنٹ پر لگنے والا یہ کاری زخم بھارتی فوج آج تک نہیں بھولی ہو گی۔ میجر نارائن سنگھ اپنے سکھ جاٹ ہونے کی للکار کیلئے مشہور تھا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو میرے سامنے آئے۔ میجر شبیر شریف اس کے مورچے میں خود کود گئے اور جھپٹ کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔
6 دسمبر کی سہ پہر کو دشمن کے ایک بڑے حملے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی بٹالین کی اینٹی ٹینک گن سے دشمن کے بڑھتے ہوئے ٹینکوں پر گولے برسا رہے تھے کہ دشمن کی فوج کی طرف سے ایک گولے نے انہیں براہ راست ہٹ(Hit) کیا اور میجر شبیر شریف نے عین حالت جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ میجر شبیر شریف کی اس بے نظیر بہادری پر ان کو نشان حیدر عطا کیا گیا۔
اور اب آئیں میجر شبیر شہید کے چھوٹے بھائی راحیل شریف کی طرف
1981ءمیں گلگت میں ایک نوجوان فوجی افسر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں بطور جی 3 تعینات تھا اور راولپنڈی سے گلگت کا بس کا سفر چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔ گلگت میں پی آئی اے کی فوکر طیارے کی آمد و رفت موسم یا دیگر عوامل کی بنیاد پر بند ہو جایا کرتی تھی۔ نوجوان فوجی افسر بالخصوص کسی آتے جاتے ہیلی کاپٹر کے انتظار میں رہتے۔ جی ایچ کیو سے ایک جنرل ہیلی کاپٹر میں گلگت آئے جن کے ساتھ عملے اور مسافروں کے علاوہ دو نوجوان افسر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پیوما ہیلی کاپٹر گلگت سے فضا میں بلند ہوا تو پتن سے پہلے ہی ہیلی کاپٹر میں فنی خرابی آ گئی۔ پائلٹ نے شاہراہ قراقرم کے قریب ہیلی کاپٹر کو بحفاظت نیچے اتار لیا۔ جونہی ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلا سب نے چھلانگیں لگا کر تیزی سے بھاگنے کو ترجیح دی۔ عقبی نشست پر دونوجوان افسروں میں سے ایک نے باہر نکل کر محفوظ مقام تک پہنچنے کا ارادہ ہی کیا تھا تو اس کے ساتھ کھڑے لحیم شحیم اور مضبوط کاٹھی کے افسر نے بازو سے پکڑ لیا اور کہا ”لالے کِتھے نس رہیاں اے (بھائی کہاں بھاگ رہے ہو) جس پر جونیئر افسر نے کہا سر دیکھتے نہیں ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ میں دھواں بھر رہا ہے جو کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتا ہے۔ سینئر نوجوان افسر بولا ”اسیں عملے نوں چھڈ کے کس طرح جا سکدے آں (ہم عملے کو چھوڑ کر کس طرح جا سکتے ہیں) جونیئر نوجوان افسر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا اور اپنی جلد بازی اور گھبراہٹ پر شرمسار ہوا۔ ہیلی کاپٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے جنرل صاحب اور دیگر مسافر شور مچا رہے تھے۔ جلدی باہر نکلو۔ لیکن سینئر نوجوان افسر ٹس سے مس نہیں ہوا اور عملے کے ساتھ اندر ہی موجود رہا۔ ہیلی کاپٹر کے وائرلیس سیٹ کی انٹینا تار کے شعلہ پکڑنے سے اٹھنے والا دھواں متبادل نظام کے فعال ہونے سے بجھ گیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ سفر کے لئے تیار ہو گیا۔ اس سینئر نوجوان کا نام جس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تھا راحیل شریف تھا۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں….2
ضیا شاہد
شبیرشریف فطرتاً نڈر اور مہم جو شخصیت کے مالک تھے۔ فوج کے چھوٹے موٹے نظم و ضبط کو پس پشت ڈالنا ان کا معمول تھا۔ اس کے باوجود ان کی نصابی سرگرمیاں اور پیشہ ورانہ کورسز میں پوزیشن صف اول کی رہی۔ ہیوی موٹر سائیکل چلانے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ابتدائی پیشہ ورانہ کورس کے لئے ہیوی موٹر سائیکل پر لاہور سے کوئٹہ اور واپسی کا سفر ان کی زندگی کی دلچسپ داستان ہے اسی سفر میں موٹر سائیکل سے گر کر شبیر شریف کو اچھی خاصی چوٹیں لگیں مگر اپنے والدین اور اعلیٰ افسروں کو پتہ نہیں چلنے دیا اپنی ابتدائی سروس میں جنگجویانہ فطرت اور مہم جوئی کے ہاتھوں اکثر و بیشتر جسمانی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار رہے مگر عسکری لگن کو اپنائے رکھا۔ سینئر عسکری کمان ان کے بعض اقدامات سے خفا بھی ہو جاتی تھی لیکن 65 ءکی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ شبیر شریف کی ولولہ انگیز کارکردگی نے تادیبی کارروائی کی بجائے انہیں ستارہ جرا ¿ت کا حقدار ٹھہرایا جسے کوئی بھی نوجوان افسر احساس تفاخر سے اپنے سینے پر سجانا چاہے گا۔ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جنگی کارکردگی کی بنا پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں انسٹرکٹر کے طور پر تعینات کرتے ہوئے ملٹری سیکرٹری برانچ کے سربراہ سوچ و بچار اور گومگو کی کیفیت کا شکار ضرور ہوں گے لیکن میجر شبیر شریف نے کاکول کی تاریخ میں کئی نئے باب رقم کئے۔ انتہائی سخت گیر افسر ہونے کے باوجود انہوں نے زیر تربیت کیڈٹس کے دل موہ لئے۔ ان کے اندر نہ جانے کئی صلاحیتیں بیک وقت موجود تھیں۔ تربیت اور ڈسپلن پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور کیڈٹس کا ذاتی طور پر خیال رکھنے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے تربیت یافتہ کیڈٹس اب خود عرصہ دراز پہلے فوج سے فارغ ہو چکے ہیں لیکن شبیر شریف کے دلچسپ واقعات آج تک یاد رکھے جاتے ہیں اور اکثر پرانے فوجی ان کی باتوں کے ذکر پر فرطِ جذبات سے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
1971ءکی پاک بھارت جنگ چھڑی تو شبیر شریف پی ایم اے کاکول میں تعینات تھے۔ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے وہ ایک ہی شب میں اپنی یونٹ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں پہنچ گئے۔ جو بظاہر فوجی نظم و نسق کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن شبیر شریف جنگ لڑنا چاہتے تھے۔شاید قدرت نے ان کے لئے پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز وقف کر رکھا تھا۔ 105 بریگیڈ سلمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے میں دشمن سے پنجہ آزمائی میں مصروف تھا جس کے بریگیڈ میجر کا نام میجر عبدالوحید کاکڑ تھا۔ (جو بعد ازاں چیف آف آرمی سٹاف بنے) اس بریگیڈ نے بھارت کا 86 مربع کلو میٹر علاقہ قبضے میں لے لیا تھا۔ 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی بی کمپنی کی کمان میجر شبیر شریف کے ہاتھوں میں تھی۔ بھارتی فوج کسی بھی طرح سلمانکی ہیڈ ورکس کو تباہ کرنا چاہتی تھی تا کہ دریا کی دوسری جانب موجود پاکستانی فوج کو محصور کیا جا سکے۔
3 دسمبر71ءکی شب میجر شبیر شریف دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کی پروا کئے بغیر اپنے جوانوں کے ساتھ بھارتی علاقے میں گھس کر حملہ آور ہوئے۔ 47 بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ 28 بھارتی فوجی قیدی بنا کر اپنے ساتھ واپس لے آئے 4 ٹینک تباہ کرنے کے علاوہ بھارتی علاقے میں ایک اہم نہری پل پر قبضہ کر لیا۔ 3 سے 6 دسمبر کے درمیان دشمن نے پل پر قبضہ واپس لینے کے لئے 14بھرپور حملے کئے۔ میجر شبیر شریف کی زیر قیادت ان کی کمپنی نے تمام حملے پسپا کر دیئے۔ دشمن کے مورچے میں گھس کر میجر نارائن سنگھ کے ساتھ دست بدست ہو کر اس کی سٹین گن چھینی اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ اس لئے میجر شبیر شریف کو فاتح صبونہ کہا جاتا ہے۔ میجر نارائن سنگھ اور 4 جاٹ رجمنٹ پر لگنے والا یہ کاری زخم بھارتی فوج آج تک نہیں بھولی ہو گی۔ میجر نارائن سنگھ اپنے سکھ جاٹ ہونے کی للکار کیلئے مشہور تھا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو میرے سامنے آئے۔ میجر شبیر شریف اس کے مورچے میں خود کود گئے اور جھپٹ کر اسے موت کی نیند سلا دیا۔
6 دسمبر کی سہ پہر کو دشمن کے ایک بڑے حملے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی بٹالین کی اینٹی ٹینک گن سے دشمن کے بڑھتے ہوئے ٹینکوں پر گولے برسا رہے تھے کہ دشمن کی فوج کی طرف سے ایک گولے نے انہیں براہ راست ہٹ(Hit) کیا اور میجر شبیر شریف نے عین حالت جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ میجر شبیر شریف کی اس بے نظیر بہادری پر ان کو نشان حیدر عطا کیا گیا۔
اور اب آئیں میجر شبیر شہید کے چھوٹے بھائی راحیل شریف کی طرف
1981ءمیں گلگت میں ایک نوجوان فوجی افسر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں بطور جی 3 تعینات تھا اور راولپنڈی سے گلگت کا بس کا سفر چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔ گلگت میں پی آئی اے کی فوکر طیارے کی آمد و رفت موسم یا دیگر عوامل کی بنیاد پر بند ہو جایا کرتی تھی۔ نوجوان فوجی افسر بالخصوص کسی آتے جاتے ہیلی کاپٹر کے انتظار میں رہتے۔ جی ایچ کیو سے ایک جنرل ہیلی کاپٹر میں گلگت آئے جن کے ساتھ عملے اور مسافروں کے علاوہ دو نوجوان افسر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پیوما ہیلی کاپٹر گلگت سے فضا میں بلند ہوا تو پتن سے پہلے ہی ہیلی کاپٹر میں فنی خرابی آ گئی۔ پائلٹ نے شاہراہ قراقرم کے قریب ہیلی کاپٹر کو بحفاظت نیچے اتار لیا۔ جونہی ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلا سب نے چھلانگیں لگا کر تیزی سے بھاگنے کو ترجیح دی۔ عقبی نشست پر دونوجوان افسروں میں سے ایک نے باہر نکل کر محفوظ مقام تک پہنچنے کا ارادہ ہی کیا تھا تو اس کے ساتھ کھڑے لحیم شحیم اور مضبوط کاٹھی کے افسر نے بازو سے پکڑ لیا اور کہا ”لالے کِتھے نس رہیاں اے (بھائی کہاں بھاگ رہے ہو) جس پر جونیئر افسر نے کہا سر دیکھتے نہیں ہیلی کاپٹر کے کاک پٹ میں دھواں بھر رہا ہے جو کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتا ہے۔ سینئر نوجوان افسر بولا ”اسیں عملے نوں چھڈ کے کس طرح جا سکدے آں (ہم عملے کو چھوڑ کر کس طرح جا سکتے ہیں) جونیئر نوجوان افسر دل ہی دل میں شرمندہ ہوا اور اپنی جلد بازی اور گھبراہٹ پر شرمسار ہوا۔ ہیلی کاپٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے جنرل صاحب اور دیگر مسافر شور مچا رہے تھے۔ جلدی باہر نکلو۔ لیکن سینئر نوجوان افسر ٹس سے مس نہیں ہوا اور عملے کے ساتھ اندر ہی موجود رہا۔ ہیلی کاپٹر کے وائرلیس سیٹ کی انٹینا تار کے شعلہ پکڑنے سے اٹھنے والا دھواں متبادل نظام کے فعال ہونے سے بجھ گیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ سفر کے لئے تیار ہو گیا۔ اس سینئر نوجوان کا نام جس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تھا راحیل شریف تھا۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں ….3
جنرل راحیل شریف جنہیں اُن کے بے تکلف دوست اور سینئر بالخصوص میجر شبیر شریف شہید کے پرانے ساتھی بوبی کے نام سے پکارتے ہیں۔ 16 جون 1956ءکو کوئٹہ میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے والد میجر رانا محمد شریف تعینات تھے۔ 27 نومبر 2013ءکو وہ جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن پاکستان آرمی کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے توسیع شدہ دوسرے عہد کمان کا وقت جوں جوں قریب آ رہا تھا وزیراعظم نوازشریف ماضی کے تلخ تجربوں کے باعث اعصاب شکن فیصلے کو آخری دِنوں تک مو ¿خر کرتے رہے، بالآخر اُن کی نظرِ انتخاب جنرل راحیل شریف پر پڑی، جو اُس وقت سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے، پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم، دوسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو ”سُپرسیڈ“ کرنے کی وجوہات وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے مشیران کو بہتر معلوم ہوں گی، عسکری حوالوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہارون اسلم 12 اکتوبر 1999ءکو جی ایچ کیو ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن تعینات تھے۔ اور ”بغاوت“ یا ”جوابی بغاوت“ میں اُن کا کردار کلیدی تھا، جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شاید اُنہیں ذہنی طور پر آرمی چیف نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے اُنہیں چند ماہ قبل چیف آف لاجسٹک سٹاف تعینات کر کے اِس دوڑ سے باہر کر دیا اور شنید ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وزیراعظم نوازشریف کے کان میں یہ پھونک دیا تھا کہ ہارون اسلم اُن کا متبادل نہیں ہو سکتے۔جوبعدازاں سچ ثابت ہوا، نوازشریف کابینہ کے وزیر و لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ خاران (بلوچستان) سے دوسری مرتبہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ناموافق حالات اور محدود سے ووٹوں کے باوجود ایم این اے منتخب ہو کر کابینہ میں جگہ بنا سکے تھے۔
قارئین جانتے ہی ہوں گے کہ اُنہوں نے جنرل پرویز مشرف سے بلوچستان کے معاملات پر اختلافات کی وجہ سے بطور گورنر استعفیٰ دے دیا تھا یا اُن سے لے لیا گیا تھا۔ بہرحال وہ میاں نوازشریف کے منظورِ نظر ضرور تھے۔ جنرل راحیل شریف اُن کے بطور کور کمانڈر گوجرانوالہ بطور بریگیڈیئر چیف آف سٹاف رہ چکے تھے اور کوئٹہ کور کی کمان سنبھالنے کے احکامات کے ساتھ ہی لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ نے بریگیڈیئر راحیل شریف کی خدمات طلب کر لیں۔ یوں دو مختلف کوروں کی کمان میں جنرل عبدالقادر بلوچ کی ترجیح بریگیڈیئر راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے وزیراعظم کو اُن کی بطور آرمی چیف موزونیت کی بابت آگاہ کیا ہو گا، بعض حلقے اُن کے نام کے لاحقے، شریف اور اُن کا تعلق لاہور سے ہونے کو وجہ ٹھہراتے رہے جو درست نہیں تھی۔ جنرل راحیل شریف کا بطور آرمی چیف تین سالہ نشیب و فراز سے بھرپور دور اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ وہ 29 نومبر کو باعزت طور پر عہدے سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین آرمی چیف ہیں جن سے وابستہ قوم کی توقعات پوری ہوئیں یا ادھوری رہ گئیں مورخین قلم ضرور اٹھائیں گے۔
راحیل شریف عمر میں میجر شبیر شریف سے تیرہ سال چھوٹے اور فوج میں اتنے ہی جونیئر ہیں، میجر شبیر شریف نے 1971ءکی جنگ میں جان کا نذرانہ ملک و قوم کو پیش کیا تو راحیل شریف کی عمر یہی کوئی پندرہ برس رہی ہو گی، شبیر شریف کو بہادری کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشانِ حیدر عطا کیا گیا۔ جب اُنہوں نے جام شہادت نوش کیا تب راحیل شریف سکول کے اختتامی سالوں میں زیر تعلیم ہوں گے۔ اِس سے قبل 1965ءکی جنگ میں لیفٹیننٹ شبیر شریف کو بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر ستارہ ¿ جرا ¿ت سے نوازا گیا تو راحیل شریف اپنے دورِ کم سنی میں ہوں گے لیکن اُن کے ذہن پر بڑے بھائی کی یادوں کے انمٹ نقش ثبت ہو چکے تھے، سپہ گری آباءکا پیشہ ہی نہیں جنون تھا، رشتے کے ماموں میجر راجا عزیز بھٹی شہید اور سگے بڑے بھائی شبیر شریف اُن کا آئیڈیل تھے، گورنمنٹ کالج لاہور جیسی مردم خیز درسگاہ سے انٹرمیڈیٹ بڑے بھائی کی تقلید میں ہی کیا اور 54 لانگ کورس کے لئے منتخب ہو گئے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں قدم رکھا تو میجر شبیر شریف کی عسکری یادوں سے نگاہیں چار ہوئی ہوں گی جنہیں پی ایم اے کاکول بطور انسپکٹر چھوڑے محض 3 برس ہوئے تھے جو جام شہادت نوش کرنے سے صرف چند روز قبل کی بات ہے۔ میجر شبیر شریف کے جونیئر کورس میٹ اور سینئر سب کی توجہ کا مرکز جینٹلمین کیڈٹ راحیل شریف کچھ زیادہ ہی مشکلات کا شکار رہے کیونکہ سینئر یا جونیئر افسر کو اُن میں شبیر شریف کی شبیہہ نظر آتی تھی، پی ایم اے کی ڈیڑھ سالہ جاںگسل تربیت کے بعد راحیل شریف کارکردگی کے لحاظ سے بڑے بھائی کے نقشِ پا نہیں چھو سکے تاہم بٹا لین سارجنٹ میجر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو اُن کی لحیم شحیم شخصیت اور گرجدار بھاری آواز کے عین مطابق تھا، مونچھیں بھی اُن کے چہرے پر خوب جچتی تھیں۔ پی ایم اے کی دو سالہ تربیت میں شاید ہی کسی اور کورس میٹ کی اتنی کھچائی ہوئی ہو گی، شبیر شریف طبعاً مہم جو اور فطری طور پر خطرات سے کھیلنے کے شوقین تھے، راحیل شریف دراز قد اور کسرتی بدن ہونے کے باوجود قدرے شرمیلے اور دھیمے مزاج کے صلح جو کیڈٹ تھے۔ بٹالین سارجنٹ میجر کے طور پر اُن کے جونیئر کی یادیں ناخوشگوار نہیں جسے عسکری حلقوں میں ”ٹھنڈا بی ایس ایم“ کہا جاتا ہے، کیونکہ روایتی طور پر یہ ایک تُنک مزاج اور سخت گیر افسر کا متقاضی ہے۔جو بلاوجہ جونیئر کیڈٹ پر گرجتا اور برستا ہے۔
میجر شبیر شریف کے دوستوں اور مداحوں کی توقعات کی طرح بہت اونچی تھیں، جینٹلمین کیڈٹ راحیل شریف کو محنت بھی زیادہ کرنا پڑی اور ڈانٹ بھی خوب کھائی، راحیل شریف کو میجر شبیر شریف کے چھوٹے بھائی کے خول سے نکلنے میں ایک دہائی تو ضرور صرف ہوئی ہو گی لیکن اُنہوں نے اپنی پہچان بالآخر بنا لی تھی، میجر شبیر شریف کا بھائی ہونے کے باعث دوران تربیت ”نقصانات“ اور بطور افسر فوائد ملی جُلی داستان ہے۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں ….4
شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہونے کے ناطے راحیل شریف کے اوپر بے پناہ دباﺅ تھا جو اُنہیں اپنا مقام بنانے میں معاون تھا۔ لیکن بیک وقت ودشوار ترین بھی۔بریگیڈیئر شوکت قادر ریٹائرڈ ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے لکھتے ہیں۔ 1961ءمیں وہ سینٹ میریز پبلک سکول میں (راولپنڈی) میں زیر تعلیم تھے، شبیر شریف سکول کے آخری سال میں اُن کے سینئر تھے، روایتی حریف سکول کے خلاف شبیر شریف اپنے سکول کی ٹیم کے کپتان تھے اور شوکت قادر جونیئر کھلاڑی، روایتی حریفوں کے درمیان ہاکی میچ سینٹ میریز نے دو کے مقابلے میں تین گول سے جیت لیا لیکن حسب سابق میچ میں تُندی و تیزی کے علاوہ لڑائی جھگڑا بھی ہوا، شائقین میں ٹیم کیپٹن شبیر شریف کے والد میجر محمد شریف بھی موجود تھے جنہوں نے فاتح ٹیم کو اپنے گھر چائے کے لئے مدعو کیا۔ بیگم و میجر شریف کا حسن سلوک اور مہمان نوازی دیدنی تھی، اُس شام سینٹ میریز کی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کی ایک پانچ سالہ بچے سے ملاقات ہوئی جس کی دلچسپی بڑے بھائی کے ہم جماعتوں سے زیادہ تین پہیوں والی سائیکل میں تھی، اس کم سن بچے کا نام راحیل شریف تھا، شوکت قادر نے شبیر شریف سے چار برسوں بعد 6 ایف ایف رجمنٹ میں ہی کمیشن لیا جس میں آٹھ سال بعد راحیل شریف نے اِس بٹالین میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ قدم رکھا۔
جنرل راحیل شریف کے دورانِ تربیت اُن کے روم میٹ کرنل ریٹائرڈ حنیف بٹ راوی ہیں کہ جب اُن کے کورس نے اکتوبر 1974ءمیں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں قدم رکھا تو اُنہیں سیکنڈ پاکستان بٹالین کی بابر کمپنی میں بھیج دیا گیا پی ایم اے کی تربیت کے ابتدائی چند روز اِس قدر حیران کن اور چکرا دینے والے ہوتے ہیں کہ کیڈٹس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہو کیا رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت سے 54 لانگ کورس کی بابر پلٹون دوچار تھی۔ ابھی ایک دوسرے سے تفصیلی تعارف کی نوبت نہیں آئی تھی ، زیادہ تر کیڈٹس کا تعلق سول پس منظر سے ہوتا ہے لیکن عسکری خاندانوں کے چند کیڈٹس بھی کورس میں شامل تھے، ایک شریف النفس نظم و ضبط کا پابند بلکہ نیم تربیت یافتہ عاجز سے لمبے تڑنگے جینٹل مین کیڈٹ کا نام راحیل شریف تھا، کئی ہفتوں تک اُن کے دیگر کورس میٹس کو یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ وہ فاتح صبونہ شبیر شریف کے برادر خورد ہیں، پی ایم اے کی انتہائی دشوار گزار تربیت کا آغاز کچھ اتنا خوشگوار نہیں ہوتا، روز و شب کے معمول میں ”رگڑا“ بنیادی عنصر ہے، کرنل حنیف بٹ کے بقول راحیل شریف نے ”رگڑا“ بھی خوب کھایا، حالانکہ انسٹریکٹر افسروں اور نان کمیشنڈ افسروں کو ہی نہیںسینئر کیڈٹس کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ راحیل شریف شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں اور کیپٹن ممتاز شریف کے بعض دوست افسر پی ایم اے ہی میں تعینات تھے پی ایم اے کی تربیت کے دوران شب و روز کو پہیہ کم از کم نہیں لگتا، ہر دن دراز اور ہر شب طویل ہوتی چلی جاتی ہے درس و تدریس، جسمانی فٹنس کی تربیت، ملٹری ڈرل، چھوٹے ہتھیاروں کی سکھلائی اور نجانے کیا کیا شامل ہوتا ہے۔
پی ایم اے کی تربیت کا لازمی ایک جزو بے رحمانہ باکسنگ مقابلہ ہے جس میں جیت ہار کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون کیسے لڑا اور اس نے اپنے حریف کا سامنا کس طرح کیا، راحیل شریف کی حتمی زور آزمائی باکسنگ رِنگ میں اُن کا حریف کے تابڑ توڑ مکوں کا سامنا کرنا اور مکے رسید کرنا آج بھی اکتالیس سال گزرنے کے باوجود اُن کے ساتھیوں کے اذہان سے محو نہیں ہوا، معلوم نہیں کس کی جیت ہوئی یا ہار لیکن راحیل شریف اور اُن کے مدِّمقابل کی باکسنگ، باﺅٹ 54لانگ کورس کی یادگار پنجہ آزمائی تھی، عینی شاہدین کہتے ہیں کہ طویل القامت اور کسرتی جسم کے مالک راحیل شریف کے مدمقابل بھی کم نہیں تھے، ایک دوسرے پر دل کھول کر مکے برسانے کے باوجود راحیل شریف کی زیر لب مسکراہٹ ویسی ہی تھی جیسی آج دیکھی جاتی ہے۔ اُن کے چہرے کے تاثرات سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اُن کے جبڑے ہل چکے ہیں اور کان سائیں سائیں کر رہے ہیں۔
راحیل شریف کی باکسنگ باﺅٹ کا تذکرہ کر ہی چکے ہیں ”یرموک‘’ نام کی ایک مشق صرف ”پانچ دن“ پر محیط ہوتی ہے جس میں باون کلو کے قریب سامان اور ذاتی ہتھیار یعنی رائفل یا لائٹ مشین گن سمیت کیڈٹس کو پانچ روز میں کوئی سوا سو میل کا سفر باپیادہ طے کرنا ہوتا ہے، جس کاآغاز ملٹری اکیڈمی کے مین گیٹ اور اختتام اُس سے ملحق گراﺅنڈ میں ہوتا ہَے، پانچ دن کی اِس جانگسل ایکسرسائز میں نالہ ڈور جِسے چھوٹا موٹا دریا کہنا مناسب ہو گا، بیچوں بیچ چلتے ہوئے ایبٹ آباد کی نواحی پہاڑی سربن ڈھاکہ کی چوٹی سے اتر کراونچی نیچی کھایوں سے گزرتے ہوئے پہلا پڑاﺅ حویلیاں ہوتا ہے، پہاڑوں، ندی، نالوں، کھیتوں، کھلیانوں، اونچی نیچی پہاڑیوںجو کاکول سے قریب 65 میل کے فاصلے پر واقع گھاٹیوں سے ہوتا ہوا حطار کے قریب پہنچ کر اختتام پذیر نہیں ہوتا….بلکہ یہ واپس اتنا ہی سفر کاکول اکیڈمی واپس آنے کے لئے طے کرنا ہوتا ہے جوکیڈٹس کی قوتِ برداشت کا شاید سب سے بڑا امتحان ہے، ایک پلٹون قریباً تیس کیڈٹس پر مشتمل ہوتی ہے جو تین سیکشن منقسم ہوتی ہے۔ ہر سیکشن کے نو کیڈٹ کے پاس ذاتی رائفل اور دسویں کیڈٹ کو مشین گن تھمائی جاتی ہے جس کا وزن قریباً دس کلو گرام سے زائد ہوتا ہے۔ مشین گن کی ساخت سے جو قارئین ناواقف ہوں اُن کے لئے یہ لکھنا ضروری ہے کہ لوہے کی اِس آہنی پُرزے کی ہئیت جسمانی طور پر مضبوط ترین کیڈٹ کو بھی تھکا دینے کے لئے کافی ہے۔
(جاری ہے)
”یرموک“ کی ابتداءسے اختتام تک پانچ روز مسلسل اور 125 میل کا فاصلہ راحیل شریف نے مشین گن کاندھے پر رکھ کرتن تنہا طے کیا، ویسے تو اِس طرح کے کردار ہر کورس میں موجود ہوتے ہیں لیکن ہائی لانگ کورس کے جن کیڈٹس نے یہ کارنامہ انجام دیا اُن میں راحیل شریف بھی شامل تھے، طلوع آفتاب سے شروع ہونے والا سفر بعض اوقات غروب آفتاب تک بھی جاری رہتا، آبلہ پا کیڈٹس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ٹیم پر سدا باون کلو گرام وزن تو ہر حال میں اُٹھاتا ہی ہے کسی طور ایل ایم جی سے جان چھوٹ جائے، جو کندھوں کے لئے الگ وبال جان سمجھی جاتی ہے۔ ایل ایم جی توجیسے راحیل شریف کے ساتھ چپک ہی گئی ہو البتہ دوپہر کے آرام میں بے اختیار اُن کے منہ سے نکل جاتا ”ایل ایم جی اُٹھانے کے لئے میں ہی رہ گیا ہوں“ لیکن پانچ روز مسلسل ایل ایم جی اُٹھانے کا ریکارڈ اپنے نام لکھوا لیا، ڈیڑھ سالہ تربیت کے بعد جسمانی طور پر مضبوط پی ایم اے کے کیڈٹس کے لئے ”پیرا ٹروپنگ“ یعنی ہوائی جہاز سے چھلانگیں لگانے والے کورس کے لئے منتخب ہوئے اکا دکا کیڈٹس کو چھوڑ کر قریباً سب کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ وردی پر نیلا ونگ کے باعث کشش ہوتا ہے۔ محدود نشستوں کی وجہ سے قریباً تین چوتھائی کورس ہی پیرا ونگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔جس کے لئے اعلیٰ درجے کی فزیکل فٹنس لازم ہے۔ راحیل شریف اس میں کامیاب نہ رہے، ہائی لانگ کورس بحیثیت مجموعی ایم اے کی تاریخ کا ”پنگے باز کورس“ نہیں ہے، راحیل شریف کسی پنگے بازی میں براہ راست حصہ نہ لے کر ہی کورس کی مجمووعی سزا کے حقدار رہے۔ شرارتی کورس میٹس سے شکوہ کیا نہ کبھی ماتھے پر شکن آئی، دوسروں کے لئے کی سزا بھی خندہ پیشانی سے قبول کی۔
عسکری زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی اُنہیں مضبوط کردار اور آہنی اعصاب کا مالک سمجھا جاتا ہے، فولادی عزم کے حامل راحیل شریف کو پی ایم اے کاکول سے اُن کے شہید برادر محترم کی 6 ایف ایف رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تعینات کیا گیا تو اُن کی عمر 20 برس سے چند ماہ ہی زیادہ تھی، درخشاں عسکری تاریخ کی حامل 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے نوجوان افسر سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف نے ابتدائی سروس میں پیشہ وارانہ کورسز امتیاز سے پاس کئے لیکن اُنہیں راحیل شریف سمجھنے کی بجائے شبیر شریف کا برادرخورد ہی سمجھا جاتا رہا، شبیر شریف کے علاوہ اُن کے دوسرے بڑے بھائی کیپٹن ممتاز شریف جنہوں نے بطور کیپٹن فوج سے بعض وجوہات کی بنا پرا ستعفیٰ دے دیا تھا، کا شمار بھی بہادر فوجی افسروں میں ہوتا تھا جنہیں ستارہ ¿ بسالت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے تو یونٹ کا ہراول دستہ اندرون بلوچستان تین سال کی بلوچوں کی باغیانہ کارروائیوں کے خلاف پوری کر کے پشاور پہنچ رہا تھا، تین چوتھائی یونٹ اور کمانڈنگ آفیسر تین ماہ بعد پشاور پہنچے، اُن کے اولین کمپنی کمانڈر میجر شوکت قادر بعد ازاں بریگیڈیئر لکھتے ہیں۔
”میں میجر شبیر شریف کا سکول میں جونیئر تھا لیکن میرے اُن سے خاندانی مراسم تھے، اِس ناطے سے میں راحیل شریف کو دورِ کم سنی سے ہی جانتا تھا۔( تاہم میں راحیل شریف کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ دیکھ کر ازحد حیران ہوا جو اپنے شہید بھائی سے بالکل متضاد تھے۔“
شبیر شریف جلد باز اور ’بلند‘ لہجے میں بات کرنے والے بھڑکیلے جارحانہ انداز کی حامل شخصیت اور خطرات کو ہمیشہ خود دعوت دیتے تھے۔ اُس کے برعکس راحیل شریف نرم خو، حد درجہ محنتی ہونے کے علاوہ مو ¿دب اور بااخلاق، مصیبت کو کبھی گلے نہیں لگایا، لیکن شبیر شریف سے کم مو ¿ثر نہیں تھے۔ شبیر شریف کی طرح ہی 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے جوانوں، سردار صاحبان اور افسروں میں یکساں مقبول جو اُن کی اس لئے بھی عزت و تکریم کرتے تھے کہ وہ شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ راحیل شریف کو متضاد شخصیت کے باعث اپنا مقام پیدا کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا، لیکن اُنہوں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھورا، عسکری پس منظر نہ سمجھنے والے قارئین کے لئے لکھا چاہ رہا ہوں کہ راحیل شریف کی رجمنٹ کے سپاہ کو اُن کی شکل میں شبیر شریف میسر تھے اور اُن سے ویسی ہی توقعات وابستہ تھیں، عام سپاہی عمومی طور پر جارحانہ رویہ پسند کرتے ہیں، راحیل شریف نے اپنے ملٹری دور کا آغاز انتہائی شاندار طریقے سے کیا اور ابتدائی چار سال سروس کے بعد گلگت میں موجود انفنٹری بریگیڈ کے گریڈ 3 آفیسر کے طور پر منتخب کیا جانا ازخود تابندہ اور روشن مستقبل کی ابتدا تھی اُن کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں نہایت اعلیٰ اور پیشہ وارانہ کورسز میں کارکردگی ارفع تھی، جو اُن کی چالیس سالہ عسکری خدمات کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ اُنہیں جرمنی میں کمپنی کمانڈر کورس کے لئے منتخب کیا گیا جو اُن کے لئے باعثِ اعزاز تھا
جنرل راحیل شریف کی یادیں -5
”یرموک“ کی ابتداءسے اختتام تک پانچ روز مسلسل اور 125 میل کا فاصلہ راحیل شریف نے مشین گن کاندھے پر رکھ کرتن تنہا طے کیا، ویسے تو اِس طرح کے کردار ہر کورس میں موجود ہوتے ہیں لیکن 54 لانگ کورس کے جن کیڈٹس نے یہ کارنامہ انجام دیا اُن میں راحیل شریف بھی شامل تھے، طلوع آفتاب سے شروع ہونے والا سفر بعض اوقات غروب آفتاب کے بعدتک بھی جاری رہتا، آبلہ پا کیڈٹس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پیٹھ پر باون کلو گرام وزن تو ہر حال میں اُٹھانا ہی ہوتاہے کسی طورلائٹ مشین گن سے جان چھوٹ جائے، جو کندھوں کے لئے الگ وبال جان سمجھی جاتی ہے۔ ایل ایم جی توجیسے راحیل شریف کے ساتھ چپک ہی گئی ہو البتہ دوپہر کے آرام میں بے اختیار اُن کے منہ سے نکل جاتا ”ایل ایم جی اُٹھانے کے لئے میں ہی رہ گیا ہوں“ لیکن پانچ روز مسلسل ایل ایم جی اُٹھانے کا ریکارڈ اپنے نام لکھوا لیا، ڈیڑھ سالہ تربیت کے بعد جسمانی طور پر مضبوط پی ایم اے کے کیڈٹس کے لئے ”پیرا ٹروپنگ“ یعنی ہوائی جہاز سے چھلانگیں لگانے والے کورس کے لئے منتخب ہوئے اکا دکا کیڈٹس کو چھوڑ کر قریباً سب کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ وردی پر نیلا ونگ کے باعث کشش ہوتا ہے۔ محدود نشستوں کی وجہ سے قریباً تین چوتھائی کورس ہی پیرا ونگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔جس کے لئے اعلیٰ درجے کی فزیکل فٹنس درکارہوتی ہے۔ راحیل شریف اس میں بھی کامیاب رہے، 54لانگ کورس بحیثیت مجموعی پی ایم اے کی تاریخ کا ”پنگے باز کورس“ سمجھا جاتا ہے، راحیل شریف کسی ”پنگے بازی“ میں براہ راست حصہ نہ لے کر بھی کورس کی مجموعی سزا کے حقدار رہے۔ شرارتی کورس میٹس سے شکوہ کیا نہ کبھی ماتھے پر شکن آئی، دوسروں کے کیے کی سزا بھی خندہ پیشانی سے قبول کی۔
عسکری زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی اُنہیں مضبوط کردار اور آہنی اعصاب کا مالک سمجھا جاتا ہے، فولادی عزم کے حامل راحیل شریف کو پی ایم اے کاکول سے اُن کے شہید برادر محترم کی 6 ایف ایف رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تعینات کیا گیا تو اُن کی عمر 20 برس سے چند ماہ ہی زیادہ تھی، درخشاں عسکری تاریخ کی حامل 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے نوجوان افسر سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف نے ابتدائی سروس میں پیشہ وارانہ کورسز امتیاز سے پاس کئے لیکن اُنہیں راحیل شریف سمجھنے کی بجائے شبیر شریف کا برادرخورد ہی سمجھا جاتا رہا، شبیر شریف کے علاوہ اُن کے دوسرے بڑے بھائی کیپٹن ممتاز شریف جنہوں نے بطور کیپٹن فوج سے بعض طبی وجوہات کی بنا پرا ستعفیٰ دے دیا تھا، کا شمار بھی بہادر فوجی افسروں میں ہوتا تھا جنہیں ستارہ ¿ بسالت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ راحیل شریف 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے تو یونٹ کا ہراول دستہ اندرون بلوچستان تین سال کی بلوچوں کی باغیانہ کارروائیوں کے خلاف مدت پوری کر کے پشاور پہنچ رہا تھا، تین چوتھائی یونٹ اور کمانڈنگ آفیسر تین ماہ بعد پشاور پہنچے، اُن کے اولین کمپنی کمانڈر میجر شوکت قادر بعد ازاں بریگیڈیئر لکھتے ہیں۔
”میں میجر شبیر شریف کا سکول میں جونیئر تھالیکن میرے اُن سے خاندانی مراسم تھے( جس کاذکر گزشتہ قسط میں آچکاہے ) اِس ناطے سے میں راحیل شریف کو دورِ کم سنی سے ہی جانتا تھا۔ تاہم میں راحیل شریف کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ دیکھ کر ازحد حیران ہوا جو اپنے شہید بھائی سے بالکل متضاد تھے۔“
شبیر شریف جلد باز اور ’بلند‘ لہجے میں بات کرنے والے بھڑکیلے جارحانہ انداز کی حامل شخصیت اور خطرات کو ہمیشہ خود دعوت دیتے تھے۔ اُس کے برعکس راحیل شریف نرم خو، حد درجہ محنتی ہونے کے علاوہ مو ¿دب اور بااخلاق، مصیبت کو کبھی گلے نہیں لگایا، لیکن شبیر شریف سے کم مو ¿ثر نہیں تھے۔ شبیر شریف کی طرح ہی 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے جوانوں، سردار صاحبان اور افسروں میں یکساں مقبول جو اُن کی اس لئے بھی عزت و تکریم کرتے تھے کہ وہ شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ راحیل شریف کو متضاد شخصیت کے باعث اپنا مقام پیدا کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا، لیکن اُنہوں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھورا، عسکری پس منظر نہ سمجھنے والے قارئین کے لئے لکھنا چاہ رہے ہیں کہ راحیل شریف کی رجمنٹ کے سپاہ کو اُن کی شکل میں شبیر شریف میسر تھے اور اُن سے ویسی ہی توقعات وابستہ تھیں، عام سپاہی عمومی طور پر جارحانہ رویہ پسند کرتے ہیں، راحیل شریف نے اپنے ملٹری دور کا آغاز انتہائی شاندار طریقے سے کیا اور ابتدائی چار سال سروس کے بعد گلگت میں موجود انفنٹری بریگیڈ کے گریڈ 3 آفیسر کے طور پر منتخب کیا جانا ازخود تابندہ و روشن مستقبل کی ابتدا تھی اُن کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں نہایت اعلیٰ اور پیشہ وارانہ کورسز میں کارکردگی ارفع تھی، جو اُن کی چالیس سالہ عسکری خدمات کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ انہوں نے ابتدائی پیشہ ورانہ کورسزامتیازاوراعلیٰ پوزیشنوں سے پاس کیے جس کی وجہ سے ان کی اولین تعیناتی بطورجی تھری انفنٹری بریگیڈ ہوئی۔اُنہیں جرمنی میں کمپنی کمانڈر کورس کے لئے منتخب کیا گیا جو اُن کے لئے باعثِ اعزاز تھااور اُنہیں اُن کے ہم عصر بہترین کپتانوں میں ممتاز کرتا تھا، اِس بنا پر اُنہیں نوجوان افسروں کی بنیادی تربیت کا ”سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹس کوئٹہ“ میں درس و تدریس کے لئے منتخب کیا گیا، راحیل شریف میجر کے عہدے پر ترقی پا کر اپنی اولین ذمہ داری بطور کمپنی کمانڈر نبھا رہے تھے کہ اُنہیں اُن کے مادرِ علمی پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ایڈجوٹنٹ کے پُروقار عہدے کے لئے منتخب کر لیا گیا جس نے اُنہیں بری فوج میں ایک جداگانہ اہمیت کا حامل بنا دیا۔
80ءکی دہائی میں پی ایم اے میں دو بٹالین تھیں اور ایڈجوٹنٹ منتخب ہونا میجر رینک کے حامل افسران کا منفرد اعزاز جن کی تعداد صرف درجنوں تک محدود ہو گی، اُس وقت پی ایم اے میں زیر تربیت تمام کیڈٹس کی نگاہیں وجیہہ، خوبرو اور دلکش شخصیت راحیل شریف کی طرف اُٹھتی تھیں تو اُنہیں ایڈجوٹنٹ ہونے کے علاوہ میجر شبیر شریف شہید ستارہ ¿ جرا ¿ت و نشان حیدر کا بھائی سمجھتے تھے راحیل شریف کو اِس بات کا بخوبی ادراک تھا، طبعاً نرم خُو اور خوش گفتار راحیل شریف کے لئے دو سال کسی امتحان سے کم نہ تھے۔ ایک طرف اُنہیں ملٹری اکیڈمی کا نظم و ضبط قائم رکھنا تھا اور دوسری طرف اہم پیشہ ورانہ کورس سٹاف کالج کے لئے تیاری کرنا تھی، راحیل شریف دونوں امتحانوں میں سُرخرو ہوئے، ملٹری اکیڈمی میں دو سالہ ناقابل فراموش یادیں چھوڑ کر یونٹ واپس پہنچے تو نوجوان افسروں کی بڑی تعداد اُن کی مداح ہو چکی تھی۔ 1988ءمیں 6 ایف ایف رجمنٹ ایک بار پھر پشاور چھاﺅنی میں موجود تھی، راحیل شریف بطور میجر کمپنی کمانڈر کے فرائض انجام دے رہے تھے اُن کے طالع بخت والد میجر رانا محمد شریف پشاور تشریف لائے جو اُس وقت پنجاب ریسلنگ ایسوسی ایشن کے عہدیدار تھے، کیپٹن موسیٰ خان خٹک بعد ازاں لیفٹیننٹ کرنل جو خود 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات تھے راوی ہیں کہ ”میجر ریٹائرڈ رانا محمد شریف کھیلوں کے دلدادہ، بالخصوص فن کشتی کے لئے تادم آخر متحرک رہے‘ پشاور چھاﺅنی سے وابستہ یادِ ماضی افسروں سے بیان کرتے رہتے بالخصوص پشاور چھاﺅنی اور گردونواح میں تاریخی اہمیت کی حامل نصب تختیوںاور کتبوں کی بابت مفصل گفتگو اور معلومات سے آگاہ کرتے تھے۔ ہر باپ کی طرح اُنہیں بھی اپنے تیسرے بیٹے سے بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں۔
جنرل راحیل شریف کی یادیں -6
میجر راحیل شریف کے بارے میں اُن کے والد نے کیپٹن موسیٰ خان کے سامنے ایک محیرالعقول پیش گوئی کی کہ راحیل شریف چیف آف آرمی سٹاف بنے گا، شہید شبیر شریف اور غازی ممتاز شریف کے والد رانا محمد شریف کی یہ پیش گوئی 25 برس بعد حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی، کیپٹن موسیٰ خان ہر فوجی کی طرح اُن کے خاندان کی لازوال قربانیوں اور عسکری خدمات کے معترف تھے لیکن یہ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ میجر رانا محمد شریف کے لبوں سے نکلی ہوئی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہو گی ستارہ بخت باپ کی یہی خواہش خوش نصیب ماں کی دُعا بن گئی جسے ربِ لم یزل نے شرفِ قبولیت بخشا۔
شریف النفس راحیل شریف کا تکیہ کلام ”لالہ“ ہے عام طور پر افواج پاکستان میں کمیشن حاصل کرنے والے افسران نچلے عہدوں پر فائز اپنے عزیز و اقرباءسے شناسائی تک کا اظہار نہیں کرتے لیکن میجر راحیل شریف میں احساس کمتری نام کی کوئی منفی سوچ سرے سے ہی موجود نہیں تھی۔
اُنہیں اِس بات پر بھی فخر تھا کہ اُن کے والد نے بطور سپاہی فوج میں ملازمت کا آغاز کیا اور رشتے کے ماموں میجر عزیز بھٹی ایئرفورس میں ایئرمین کی حیثیت سے شامل ہونے کے بعد ہی بری فوج میں افسری کا زینہ چڑھے۔ افسران کی اکثریت جنہیں سینئر عہدوں پر پہنچنے کا شائبہ بھی ہو وہ ماتحت رشتہ داروں سے دماغی اور جسمانی فاصلہ پیدا کر لیتے ہیں۔ راحیل شریف کو ایسا تکبر چھو کر بھی نہیں گزرا۔
راحیل شریف پیشہ ورانہ فوجی زندگی کے مدارج طے کرنے لگے۔ کینیڈا سٹاف کالج کے لئے منتخب ہوئے تو ان کا شمار یقینا چند گنے چنے افسران میں ہوا۔ کمانڈاینڈ سٹاف کالج کینیڈا سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کی اولین تعیناتی بطور انفنٹری بریگیڈ میجر ”تھر “اور راجستھان کے بارڈر پر صحرائی علاقے چھور میں ہوئی ،ثانیاًاوکاڑہ چھاﺅنی میں موجود انفنٹری بریگیڈ میجر تعینات کیا جانا ان کی مہارت اور مشاقی کامظہر ہے ۔اس وقت ا ن کے محسن ومربی جنرل پرویزمشرف جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے ۔جنرل پرویز مشرف سے تیس سالہ برادرانہ روابط کے باوجود کبھی حد ادب سے تجاوز کیا نہ ان سے کسی قسم کی رعایت طلب کی ۔میجر رینک کے کسی بھی افسر کے لئے انفنٹری بریگیڈ میں بریگیڈ میجر کے طور پر تعیناتی ترقی کے زینے کی اولین سیڑھی ہے جس پر انہوں نے قدم رکھا تو ا ن کا شمار بری فوج کے گنے چنے افسران میں ہونے لگا ۔
اپنی پیشہ وارانہ صلاحیت ،لگن اور خلوص کی بنا پر حددرجہ بہترین سالانہ رپورٹ کے حقدار ٹھہرے ،اس دور میں انہیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی اسی عہدے پر ترقی پاکر انہوں نے دوانفنٹری بٹالین کی کمانڈ کی جس میں ان کی بنیادی یونٹ 6ایف ایف رجمنٹ اور 26ایف ایف رجمنٹ شامل ہیں بطور لیفٹیننٹ کرنل نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے آرمڈ فورسز وار کو رس کے لئے منتخب کیا جانا ترقی کے مزید زینے چڑھنے کی نوید تھی ،6فرنٹیئر فورس رجمنٹ ،لائن آف کنٹرول کے اس پار آزاد کشمیر کے علاقہ باغ میں تعینات تھی ،کسی بھی افسر کے لئے اپنی بنیادی رجمنٹ کی کمان اعزازہی نہیں جذباتی وابستگی سے بھر پور ہو تی ہے ،” شیروڈنا“ کے دیوقامت پہاڑ اور سروقد جنگل لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف سے ناآشنا نہیں تھے ،لائن آف کنٹرول کے اس پار بارڈر سکیورٹی فورس اور باقاعدہ بھارتی فوج جنگی یونٹ بھی لاعلم نہیں تھی کہ مقبوضہ اور آزادکشمیر کی خونی لکیر کے اس پار فاتح صبونہ شبیر شریف کی رجمنٹ مورچہ زن ہے اور اس کی کمان ان کے چھوٹے بھائی راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے ۔بطور لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف دوسری مرتبہ سیالکوٹ میں تعینات ہوئے ،انہیں 26فرنٹیئر فورس کی کما ن سونپی گئی ،تب تک جنرل پرویز مشرف اقتدار سنبھال کرملک کے چیف ایگزیکٹو بن چکے تھے ۔
ملٹری مانیٹرنگ سسٹم کا دور دورہ تھا ،گوجرانوالہ کے کچھ نوسر باز قسم کے تاجروں نے کسی آسٹریلین کمپنی سے معقول رقم ہتھیا لی تھی اور قریباً روپوش تھے آسٹریلین ہائی کمیشن اسلام آباد از حد کوششوں کے باوجود رقم کی واپسی نہیں کروا سکا ،کبھی سرخ فیتہ آڑے آجاتا اور کبھی گوجرانوالہ پولیس کی نااہلی ،کیونکہ پاکستانی فرم جعل سازوں کے ذہن کی اختراع تھی ،آسٹریلین ہائی کمیشن نے وزارت داخلہ کے ذریعے جی ایچ کیو سے استد عاکی کہ تدبیر کی جائے کیونکہ پولیس تو ان ملزموں کاسراغ لگانے میں ناکام رہی تھی ،اس فراڈ کیس کی باز گشت آسٹریلیا میں بھی سنائی دینے لگی ۔ترقی یافتہ ممالک کے بھی اپنے مفادات ہو تے ہیں جب پاکستان نے مئی 1998ءمیں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکہ کیا تو آسٹریلین سٹاف کورس میں زیر تربیت پاکستانی فوجی افسران کو آناً فاناًکورس سے خارج کرکے ملک بدری کے احکامات دے دئیے لیکن ملٹری حکومت میں اپنے شہریوں کی ڈوبی ہوئی رقم واگزار کروانے کے لئے فوج کا سہارا ہی لیا ،لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کورکمانڈر گوجرانوالہ کے بااعتماد ماتحت تھے اور لیفٹیننٹ کرنل آغا جہانگیر علی خان کو ان کی ایمانداری پر پورا یقین تھا کہ نہ تو لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف کے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ آسٹریلین کرنسی کی چکا چوند ان کی آنکھوں کو خیرہ کر پائے گی ۔لیفٹیننٹ کرنل راحیل شریف نے ان کے اس یقین پرتصدیق کی مہر ثبت کر تے ہوئے پولیس کی مدد اور اپنی ذاتی نگرانی سے پاکستانی تاجروں کا کھوج لگایا او ر ا ن سے زرکثیر برآمد کروا کرحکومتی ذریعہ سے آسٹریلین ہائی کمیشن کے حوالے کیا۔
لگے ہاتھوں ایمن آباد میں ایک جعلی پیر کاتذکرہ بھی کرتے چلےں، کسی بہروپیے نے عامل کا سوانگ رچا کر عوام کی ایک کثیر تعدا د کو اپنے سحر میں جکڑ رکھاتھا اور اسے سیاسی پشت پناہی بھی حاصل تھی اس کی اخلاق باختہ سر گرمیاں جاری تھیں اور مذموم مقاصد کے لئے خواتین کا استحصال کرنے سے بھی نہیں چوکتا تھا۔