AIM-سیکھو اور سکھاؤ-- جیو اور جینے دو
Welcome to my page! I want to share my stuff (All in One Place )with you and hope you will find something useful here. I hope you enjoy my collection and come back again and again. I will do my best to make the content ever more interesting.Like Info Video,e Book, News Relating,Knowledge and Entertainment.
I am trying to share all Under One Umbrella.
Thank you for your time!

چہل ربنا ۔ چالیس دعائیں.40 Rabbana from the Quran

قرآن سے ماخوز چالیس دعایں.... جس میں رب کو پکارا گیا ہے.











مسلمان بھائی کی مدد کرنا

 مسلمان بھائی کی مدد کرنا
اسلام میں عبادت کا مفہوم کافی وسیع ہے ۔ صرف نماز‘ روزہ ‘ حج و زکاۃ یا چند رسمی امور کی ادا ئیگی یا شکل و صورت کی 
درستگی ہی عبادت نہیں بلکہ اسلام میں ہرنیکی اورہرخیرکاکام ‘ جواللہ تعالیٰ کوراضی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سےکی جائے عبادت ہے۔خلوصِ نیت سےاللہ کی رضاکیلئےدوسروں کے کام آنا یعنی اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی نیکی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے اپنی وتر کی دعاوٴں میں اس جملے کو ادا فرمایا :
...أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ... (ابوداود حدیث نمبر ۱۵۰۸)
’’ میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان ایک دوسرے کے بھایٴ ہیں۔ ‘‘
... إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ...’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘ ( سورة الحجرات آیت ۱۰ )
یہی انسانی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کیلئے وقف کر دے اور ہر مخلوق کی مدد و خدمت کرے۔ رسول اللہ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے اپنی کیفیت کو اپنی اہلیہ محترمہ ام الموٴ منین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو انہوں نے اپنے شوہر کی پوری زندگی چھہ جملوں میں بیان کر دی۔ یہ چھہ جملے تمام حقوق العباد سے متعلق تھے اور دوسرے کے کام آنے اور دوسروں کے خدمت و مدد سے مربوط تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی کسی ایسی عبادت کا ذکر نہیں فرمایا جو سجدہ و رکوع کی کثرت یا ذکر و عبادت سے متعلق تھی بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت والی عبادت کا ذکر کیا کہ
(1) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور
(2) ہر سچی بات کی تصدیق کرتے ہیں اور
(3) دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور
(4) دوسروں کو کما کر دیتے ہیں ( بے سہارا کا سہارا بنتے ہیں) اور
(5) مہمان نوازی کرتے ہیں اور
(6) ہر حق والے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ( صحیح بخاری و مسلم ).
یہ چھہ (6) صفات ہیں جو ہمیں بتا رہی ہیں کہ یہی رسول اللہ ﷺ کی وہ اسوہ ہے جسے اپنا نے کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 21میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّ۔هِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّ۔هَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّ۔هَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
’’ یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘‘
دوسروں کے کام آنا ‘ دوسروں کا بوجھ اٹھانا ‘ بے سہارا کا سہارا بننا وغیرہ اہم ترین نیکیاں ہیں ۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہئے کہ اِن نیکیوں کو اپنی اپنی زندگی کا مقصد بنالیں کیونکہ وہ مسلمان عظیم ہے جس کی زبان‘ ہاتھ پیر اور دوسری توانائی و صلاحیت دوسرے مسلمان کے کام آئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والا ہو‘ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ
تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشی کا داخل کرو‘
یا اسکی تکلیف و پریشانی کو دور کرو ‘
یا اس کے قرض کی ادئیگی کا انتظام کرو ‘
یا اس کی بھوک کو ختم کرو ‘
اور میں اپنے کسی مسلمان بھایٴ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ( چند قدم ) اس کے ساتھ چلنے کو مسجد کے دو مہینے کے اعتکاف سے بہتر سمجھتا ہوں ‘
º اور جس کسی نے اپنا غضب روک لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا
º اور جس کسی نے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے دل کو غنا سے بھر دے گا
º جو کویٴ اپنے مسلمان بھایٴ کی کویٴ ضرورت پوری کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے قدموں کو پھسلنے ( اور پھسل کر جہنم میں گرنے ) سے بچائے گا اور ثابت قدم رکھے گا ‘
اور برا اخلاق ساری نیکیوں کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ ( صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر ۱۷۶)
خوش نصیب ہیں وہ مسلمان
· جو دوسرے مسلمانوں اور انسانوں کے کام آتے ہیں۔
· ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔
· محتاج و نادار کی خدمت کرتے ہیں۔
· جو بے آسرا اور تنہا ہیں ‘ اُن کا ساتھی بن کر اُن کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· یتیموں اور بیواوٴں کا خیال کرکے اپنے لئے دنیا میں جنت کی ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔
· معذور اور بوڑھے افراد کا سہارا بنتے ہیں۔
اور
· اس طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسِ سلوک کرکے اللہ کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،بلاوجہ چیزوں کی قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے ناراضگی نہ رکھو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ لہذا کوئی بھی اپنے بھائی پر ظلم نہ کرے۔ اس کو رسوا نہ کرے، اس کو حقیر نہ سمجھے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرکے 3 بار فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ کسی شخص کی برائی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون بہانا، اس کی عزت پامال کرنا اور اس کا مال لوٹنا حرام ہے۔
(مسلم ، کتاب البر والصلۃ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔ “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اسے (بے یار و مددگار چھوڑ کر دشمن کے) سپرد کرتا ہے، جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری فرماتا ہے، جو کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور فرما دے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔“ (بخاری و مسلم شریف)
اس حدیث مبارکہ سے جو اہم پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک خاندان کے افراد کی طرح رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں، کہ جس طرح ایک شخص اپنے باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ پر کوئی ظلم کرنا، مدد کے وقت اسے بے یارو مددگار چھوڑنا پسند نہیں کرتا، اسے کوئی حاجت پیش آئے تو پوری کرنے کی، کسی مشکل اور تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے دور کرنے کی اور اگر اس سے کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جائے تواس کی پردہ پوشی کی کوشش کرتا ہے، بالکل یہی معاملہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ ہونا چاہئیے، اس سے اللہ تعالٰی خوش ہوتا ہے اور اس کا بہترین صلہ اسے دنیا و آخرت میں عطا فرماتا ہے، گویا یہ ایک اجتماعی کفالت کا ایک بہترین نظام ہے، جس پر اگر مسلمان عمل کریں تو آخرت کی بھلائی کے ساتھ ان کی دنیا بھی جنت نظیر بن سکتی ہے، اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے اس طرح مخاطب ہے :۔
“(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔“ (الحجرات۔ 10)
یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ اگر کوئی دشمن ان میں سے کسی سے برسر پیکار ہو تو وہ ایک دوسرے کے دست و بازو، ہمدرد و غمگسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں، اور مل کر باطل قوتوں کا مقابلہ کریں۔
ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا وہ ظالم ہو یا مظلوم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے-
كتاب المظالم والغصب - صحيح البخاري
حديث -2444
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہر انسان اور خاص کر ہر مسلمان کی مدد اور خدمت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں خیر کی چابیاں بنا ئے۔ آمین

خدمت خلق

انسانی زندگی پر خدمت خلق کے ثمرات

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

خدمت خلق کا مفہوم:
خد مت خلق“ کے لغوی معنی” مخلوق کی خدمت کرنا“ہے اور اصطلا ح اسلام میںخدمت خلق کا مفہوم یہ ہے : ”رضا ئے حق حاصل کر نے کے لیے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دینا ہے“ ۔

لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بڑی عزت واحترام پاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا حقدار بن جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا شیخ سعدی علیہ الرحمة کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے:
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
یعنی ” جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے (ایک وقت ایسا آتا ہے کہ)لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں“۔

اسلام میں ایک بہترین انسان کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے، ان میں سے ایک صفت خدمت خلق کی ہے اور ایسی صفت رکھنے والے کو اچھا انسان قرار دیا گیا ہے۔ خدمت خلق میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔

خدمت خلق اور قرآنی حکم:
خدمت خلق میں صرف مالی امدادواعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا،کسی کی کفالت کرنا، کسی کو تعلیم دینا، کوئی ہنر سکھانا،اچھا اور مفید مشورہ دینا،کسی کی علمی سرپرستی کرنا،مسجد اور مدرسہ قائم کرنا،نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں ۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
﴾ وَتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَالعُدوَانَ۔ ﴿
(سورةالمائدہ:آیت۲)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! نیکی اور پر ہیزگاری(کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو“۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ خیروبھلائی اور اچھے کاموں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون وامداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گنا ہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے۔

ایک حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَیرُ النَّاسِ مَن یَّنفَعُ النَّاسَ۔
ترجمہ: ”لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے“۔
(جامع ترمذی)

ایک اور مقام پر فرمایا:
ترجمہ: اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔
(صحیح مسلم)

رسول کریم ﷺ نے بہترین انسان کے بارے میں فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسنِ سلوک کرتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بہترین انسان بننے کا معیار یہ مقرر کیا ہے کہ اس کے وجود دوسروں کے لئے فائدہ مند اور نفع آور ہو، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو اور ان کی خیرو بھلائی کے لئے ہر وقت کوشاں رہے۔
ع دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک سچے مسلمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ ایسے کام کرے، جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔مثلاً رفاعی ادارے بنانا، ہسپتال وشفاخانے بنانا، اسکول وکالجز بنانا، کنویں اور تالاب بنانا، دارالامان بنانا وغیرہ، یہ ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے ہیں کہ جو صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں اور اس کا اجرو ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اوراس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔

خدمت خلق اوراسوئہ نبویﷺ:
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
ترجمہ: ”رحمت کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا“۔(صحیح مسلم)

رسول اللہ ﷺ اپنے گھر کے سارے کام خود فرمایا کرتے تھے۔ پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے اور اپنے نعلین کی خود مرمت فرمالیتے۔ پالتو جانوروں کو خود کھولتے باندھتے اور انہیں چارا دیا کرتے الغرض کسی کام میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔رسول اللہ ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ ضرورت مند لوگوں کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کر دیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے کام بھی آتے تھے،۔ ایک بوڑھی یہودیہ عورت کی خدمت کرنے کا واقعہ احادیث میں موجود ہے۔اسی طرح آپ ﷺ اپنے پڑوسیوں کی دیکھ بھال اور تیمارداری بھی فرماتے تھے۔

Oایک مرتبہ حبشہ سے نجاشی بادشاہ کے کچھ مہمان مدینہ منورہ آئے۔ صحابہ کرام کی خواہش تھی کہ مہمانوں کی خدمت اور مہمان نوازی وہ کریں لیکن حضور سید عالمﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت اور خاطر مدارت کی اور فرمایا کہ ”ان لوگوں نے میرے ساتھیوں(مہاجرین حبشہ)کی خدمت کی ہے اس لئے میں خودان کی خدمت کروں گا۔“(شعب الایمان،مسند امام احمد)

Oحضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رواےت کرتے ہیں کہ اصحابِ صفہ غریب لوگ تھے۔ ایک بار حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ یہاں (اصحابِ صفہ میں)سے تیسرے آدمی کو لے جائے (یعنی ان کو کھانا کھلائے) اور جس کے گھر میں چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو لے جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو گھر لائے اور خود حضور نبی کریم ﷺ اپنے ساتھ دس آدمیوں کو لے کر گئے “۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

غلاموں کی آزادی اور رضائِے الہٰی:
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جس مسلمان کو کفار کے ہاتھ میں غلام یا قیدی کی حالت میں دیکھتے تو اُس کو خرید کر آزاد کردیتے تھے اور یہ لوگ عموماً کمزور اور ضعیف ہوتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ : ”جب تم غلاموں کو خرید کر آزاد ہی کرتے ہو تو ایسے غلا موں کو خرید کر آزاد کرو جو طاقت وَر اوربہادر ہوں تاکہ وہ کل تمہارے دشمنوں کا مقابلہ اور تمہاری حفاظت کرسکیں“-

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ: ”میرا مقصد اُن آزاد کردہ غلاموں سے کوئی فائدہ اٹھانا نہیں ہے ، بلکہ میں تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اُن کو آزاد کرتا ہوں“۔(تاریخ الخلفائ، تفسیر ضیاءالقرآن،تفسیر مظہری)

مال و دولت اگر صحیح مصرف ، صحیح مقام اور مناسب موقع پر خرچ ہو تو اُس کی قدر و منزلت غیر متنا ہی ہو جاتی ہے۔ روٹی کا ایک ٹکڑاشدتِ ِگرسنگی (شدید بھوک) کی حالت میں خوانِ نعمت ہے، لیکن آسودگی کی حالت میں ”الوانِ نعمت“ بھی بے حقیقت شئے بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے اپنی جان و مال سے رسول اللہ ﷺ کی اعانت و مدد کی تھی، ان کو قرآن مجید نے مخصوص عظمت و فضیلت کا مستحق قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ خدا وندی ہے: ترجمہ: ”تم میں سے کوئی برابر ی نہیں کرسکتا، اُن کی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (راہِ خدا میں) مال خرچ کیا اور جہاد کیا، اُن کا درجہ بہت بڑا ہے، ان سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا، اور سب کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بہ خوبی خبردارہے۔(سورة الحدید:آیت۰۱)

صدیق کیلئے خدا کا رسول کافی ہے:
Oایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال طلب کیا تو شاہراہِ عشق و محبت کے سالکین دوڑ پڑے۔کوئی اپنا چو تھائی مال لے کر آیا ، تو کوئی اپنی آدھی متاع لے کر آیا اور آسمانِ محبت کے نیر اعظم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا گھر کا گھر اٹھا لائے ۔ حضورِ اکرم ﷺ نے پوچھا:” اے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ! اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟

کاروانِ عشق کے سالارِ اعلیٰ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑا ہی پیارا اور دل رُبا جواب دیا ،جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے مرقوم ہے- عرض کیا :” یا رسول اللہ ﷺ ! اپنے گھر والوں کے لئے بس اللہ اور اس کے رسول ﷺ (کی رضا) کو چھوڑ آیا ہوں“۔اس جذبہ مقدس کو شاعر ِمشرق علامہ محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں:
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

خدمت خلق اور اسوہ فاروقی:
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض آپ کے نام سے ہی قیصر و کسریٰ ایسی عظیم الشان سلطنت کے ایوان حکومت و اقتدار میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا اور دوسری طرف خدمت خلق کا یہ عالم ہے کہ کندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کیلئے آپ پانی بھرتے ہیں۔ مجاہدین اسلام کے اہل و عیال کا بازار سے سودا سلف خرید کر لادیتے ہیں اور پھر اسی حالت میں تھک کر مسجد نبویﷺ کے کسی گوشہ میں فرشِ خاک پر لیٹ کر آرام فرماتے ہیں۔

Oایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا، آپ کیوں اتنی محنت ومشقت کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون غلام ہوسکتا ہے، جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ در حقیقت ان کا غلام بھی ہے۔(سیرالصحابہ/ کنزالعما ل )

خلق خدا کی خدمت میں صوفیاء کرام کا کردار:
حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 561 ھ / 1166 ء) فرماتے ہیں کہ: ” اگر مجھے دنیا کے تمام خزانوں کا مال اور دولت مل جائے تو میں آن کی آن میں سب مال و دولت فقیروں، مسکینوں اور حاجت مندوں میں بانٹ دوں۔اور فرمایا کہ امیروں اور دولت مندوں کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی مسرت اور سعادت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے“۔(غنیة الطالبین)

حضو ر دا تا گنج بخش سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ(متوفی 465ھ/1074ئ) اپنی شہرہ آفاق تصنیف”کشف المحجوب“ میں فرماتے ہیں کہ:”ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا کو حاصل کرنے اور اسے (حاجت مندوں میں) لٹا دینے میں پوری طرح مشغول تھا،جس کی وجہ سے میں بہت قرض دار ہو گیا جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی،وہ میری طرف ہی رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ سب کی آرزو کیسے پوری کروں۔اندریں حالات ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ اے عظیم فرزند! اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کیا کرو مگر سب کے لئے اپنا دل پریشان بھی نہیں کیا کرو کیوں کہ اللہ رب العٰلمین ہی حقیقی حاجت رواہے اوروہ اپنے بندوں کے لئے خود ہی کافی ہے“۔

شہباز طریقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 1267ھ/ 1851ئ)نے جب تونسہ شریف میں مستقل سکونت فرمائی،تو اس وقت حالت یہ تھی کہ رہنے کے لئے کوئی مکان نہ تھا ،فقط ایک جھونپڑی تھی،جس میں آپ فقروفاقہ سے شغل فرماتے تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد جب بڑے بڑے امرا، وزرا، نواب اور جاگیر دار آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہونے لگے تو کچھ فتوح (نذرانوں) کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور دنیا کی ہر نعمت آپ کے قدموںمیں آتی گئی،لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود استغناء اور مخلو قِ خدا کی خدمت کا یہ جذبہ تھا کہ آپ کے قائم کردہ آستانہ عالیہ سلیمانیہ میں ہزاروں طلبہ، درویش ،مہمان اور مسافر ہر روز لنگر سے کھانا کھاتے تھے۔کھانے کے علاوہ بھی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہوتی تھی اور بیماری کی حالت میں ادویات بھی لنگر سے بلامعاوضہ ملتی تھیں۔

ایک مرتبہ لنگر خانے کے ایک باورچی نے عرض کی کہ:” حضور!اس مہینہ میں پانچ سو روپیہ صرف درویشوں کی دوائی پر خرچ ہوگیا ہے“۔ آپ نے فرمایا کہ.... ”اگر پانچ ہزار روپے بھی خرچ ہوجائیں تو مجھے اطلاع نہ دی جائے، درویشوں اور طالب علموں کی جان کے مقابلہ میں روپے پیسے کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔
(بحوالہ تذکرئہ خواجگانِ تونسوی،نافع السالکین)

انسانی زندگی پر خدمت خلق کے ثمرات
اللہ کے انعام یافتہ بندے:
اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہمیں اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز خرچ کرنی چاہئے کہ اس سے اﷲ کی رضا اور خیرو بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:
لَن تَنَالُوا البِرَّحَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَےیٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیمo
ترجمہ: ” جب تک تم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز خرچ نہیں کرو گے تو خیروبھلائی (تقویٰ و پرہیز گاری) تم کو ہر گز نہیں پہنچ سکتے اور تم جو کچھ بھی (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو گے، اﷲ اس کو جاننے والا ہے“۔(سورة آل عمران: آیت ۲۹)

حضور نبی کریمﷺ نے فرما یا کہ: ”اﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اﷲ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے، اﷲ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوںسے نواز تا رہے گا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محرو م کر دیں گے تو اﷲ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فرما لیتا ہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطاء فر ما دیتا ہے“۔
(مشکوٰة )

حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینے میں بڑے مال دار صحابی تھے اور انہیں اپنے اموال میں سے اپنا باغ ”بیرحائی“ بہت ہی پیارا اور محبوب تھا اور جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲﷺ! مجھے اپنے تمام اموال میں باغ بیر حا سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے اپنا وہ باغ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیا“۔(صحیح بخاری / صحیح مسلم)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کو تقویٰ وپرہیز گاری کا سبب بتا یا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاَمَّا مَن اَعطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالحُسنٰیo فَسَنُیَسِّرُہُ لِلیُسرٰیo
ترجمہ: ”پھر جس نے (راہِ خدامیں اپنا)مال دیا اور(اس سے)ڈرتا رہا اور(جس نے) اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم آسان کر دیں گے اس کے لئے آسان راہ“۔(سورة اللیل: آیت ۷۔۵)

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے”اتقٰی“ سے پہلے ”اعطٰی“ ذکر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مال خرچ کرنا جہاں تقویٰ وپرہیزگاری کا سبب ہے اور اس سے خیر و بھلائی اور نیکیوں کے راستے کھل جاتے ہیں اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سخاوت کے بغیر تمام اعمال ادھورے رہ جاتے ہیں، گویا سخاوت تمام اعمال خیر کو درجہ کمال تک پہنچانے کا سبب بھی ہے۔

ہمدردی اور احترامِ انسانیت جس کا ہمارا دین مطالبہ کرتا ہے ، وہ ایک معاشرتی اصلاح کا کامیاب نسخہ ہے، جس کی بدولت معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک اسلامی وفلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال!
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

خدمت خلق ،وقت کی اہم ضرورت:
حضور رحمت دو عالم ﷺ نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکیدو تلقین فرمائی....مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریا درسی کی تاکید فرمائی.... یتیموں، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرما یا ہے۔

خدمت خلق وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی ہے۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے .... کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے....کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے.... کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول ﷺ بھی ہے....کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے ۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے، اپنے لئے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تو وہ ہے ،جو اﷲ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لئے جیتا ہو۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی درجات حاصل کرلیتا ہے۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم، خوش اخلاقی، غمخواری و غمگساری خیرو بھلائی، ہمدردی، عفو و درگزر، حسن سلوک، امداد و اعانت اور خدمت خلق! ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات (Qualities) ہیں کہ جن کی بہ دولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے۔

درود پاک

الله تعالی کا ارشاد
إن الله وملئکتہ یصلون علے النبی یایها الذین امنو صلو علیه وسلمو تسلیما - ط [احزاب 52]
 درود و سلام اللہ تعالیٰ کی ان با برکت نعمتوں میں سے ہے جو اپنے دامن میں بے پناہ فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی لازوال دولت ہے کہ جسے مل جائے اس کے دین و دنیا سنور جاتے ہیں۔ درود و سلام محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خزانہ، گناہوں کا کفارہ، بلندیِ درجات کا زینہ، قربِ خداوندی کا آئینہ، خیر و برکت کا سفینہ ہے۔ مجلس کی زینت، تنگ دستی کا علاج، جنت میں لے جانے والا عمل، دل کی طہارت، بلاؤں کا تریاق، روح کی مسرت، روحانی پریشانیوں کا علاج، غربت و افلاس کا حل، دوزخ سے نجات کا ذریعہ اور شفاعت کی کنجی ہے۔


Your Feedback

Welcome

چہل ربنا ۔ چالیس دعائیں.40 Rabbana from the Quran

قرآن سے ماخوز چالیس دعایں.... جس میں رب کو پکارا گیا ہے.











مسلمان بھائی کی مدد کرنا

 مسلمان بھائی کی مدد کرنا
اسلام میں عبادت کا مفہوم کافی وسیع ہے ۔ صرف نماز‘ روزہ ‘ حج و زکاۃ یا چند رسمی امور کی ادا ئیگی یا شکل و صورت کی 
درستگی ہی عبادت نہیں بلکہ اسلام میں ہرنیکی اورہرخیرکاکام ‘ جواللہ تعالیٰ کوراضی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سےکی جائے عبادت ہے۔خلوصِ نیت سےاللہ کی رضاکیلئےدوسروں کے کام آنا یعنی اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی نیکی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے اپنی وتر کی دعاوٴں میں اس جملے کو ادا فرمایا :
...أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ... (ابوداود حدیث نمبر ۱۵۰۸)
’’ میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان ایک دوسرے کے بھایٴ ہیں۔ ‘‘
... إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ...’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘ ( سورة الحجرات آیت ۱۰ )
یہی انسانی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کیلئے وقف کر دے اور ہر مخلوق کی مدد و خدمت کرے۔ رسول اللہ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے اپنی کیفیت کو اپنی اہلیہ محترمہ ام الموٴ منین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو انہوں نے اپنے شوہر کی پوری زندگی چھہ جملوں میں بیان کر دی۔ یہ چھہ جملے تمام حقوق العباد سے متعلق تھے اور دوسرے کے کام آنے اور دوسروں کے خدمت و مدد سے مربوط تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی کسی ایسی عبادت کا ذکر نہیں فرمایا جو سجدہ و رکوع کی کثرت یا ذکر و عبادت سے متعلق تھی بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت والی عبادت کا ذکر کیا کہ
(1) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور
(2) ہر سچی بات کی تصدیق کرتے ہیں اور
(3) دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور
(4) دوسروں کو کما کر دیتے ہیں ( بے سہارا کا سہارا بنتے ہیں) اور
(5) مہمان نوازی کرتے ہیں اور
(6) ہر حق والے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ( صحیح بخاری و مسلم ).
یہ چھہ (6) صفات ہیں جو ہمیں بتا رہی ہیں کہ یہی رسول اللہ ﷺ کی وہ اسوہ ہے جسے اپنا نے کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 21میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّ۔هِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّ۔هَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّ۔هَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
’’ یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘‘
دوسروں کے کام آنا ‘ دوسروں کا بوجھ اٹھانا ‘ بے سہارا کا سہارا بننا وغیرہ اہم ترین نیکیاں ہیں ۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہئے کہ اِن نیکیوں کو اپنی اپنی زندگی کا مقصد بنالیں کیونکہ وہ مسلمان عظیم ہے جس کی زبان‘ ہاتھ پیر اور دوسری توانائی و صلاحیت دوسرے مسلمان کے کام آئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والا ہو‘ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ
تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشی کا داخل کرو‘
یا اسکی تکلیف و پریشانی کو دور کرو ‘
یا اس کے قرض کی ادئیگی کا انتظام کرو ‘
یا اس کی بھوک کو ختم کرو ‘
اور میں اپنے کسی مسلمان بھایٴ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ( چند قدم ) اس کے ساتھ چلنے کو مسجد کے دو مہینے کے اعتکاف سے بہتر سمجھتا ہوں ‘
º اور جس کسی نے اپنا غضب روک لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا
º اور جس کسی نے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے دل کو غنا سے بھر دے گا
º جو کویٴ اپنے مسلمان بھایٴ کی کویٴ ضرورت پوری کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے قدموں کو پھسلنے ( اور پھسل کر جہنم میں گرنے ) سے بچائے گا اور ثابت قدم رکھے گا ‘
اور برا اخلاق ساری نیکیوں کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ ( صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر ۱۷۶)
خوش نصیب ہیں وہ مسلمان
· جو دوسرے مسلمانوں اور انسانوں کے کام آتے ہیں۔
· ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔
· محتاج و نادار کی خدمت کرتے ہیں۔
· جو بے آسرا اور تنہا ہیں ‘ اُن کا ساتھی بن کر اُن کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· یتیموں اور بیواوٴں کا خیال کرکے اپنے لئے دنیا میں جنت کی ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔
· معذور اور بوڑھے افراد کا سہارا بنتے ہیں۔
اور
· اس طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسِ سلوک کرکے اللہ کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،بلاوجہ چیزوں کی قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے ناراضگی نہ رکھو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ لہذا کوئی بھی اپنے بھائی پر ظلم نہ کرے۔ اس کو رسوا نہ کرے، اس کو حقیر نہ سمجھے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرکے 3 بار فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ کسی شخص کی برائی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون بہانا، اس کی عزت پامال کرنا اور اس کا مال لوٹنا حرام ہے۔
(مسلم ، کتاب البر والصلۃ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔ “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اسے (بے یار و مددگار چھوڑ کر دشمن کے) سپرد کرتا ہے، جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری فرماتا ہے، جو کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور فرما دے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔“ (بخاری و مسلم شریف)
اس حدیث مبارکہ سے جو اہم پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک خاندان کے افراد کی طرح رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں، کہ جس طرح ایک شخص اپنے باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ پر کوئی ظلم کرنا، مدد کے وقت اسے بے یارو مددگار چھوڑنا پسند نہیں کرتا، اسے کوئی حاجت پیش آئے تو پوری کرنے کی، کسی مشکل اور تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے دور کرنے کی اور اگر اس سے کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جائے تواس کی پردہ پوشی کی کوشش کرتا ہے، بالکل یہی معاملہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ ہونا چاہئیے، اس سے اللہ تعالٰی خوش ہوتا ہے اور اس کا بہترین صلہ اسے دنیا و آخرت میں عطا فرماتا ہے، گویا یہ ایک اجتماعی کفالت کا ایک بہترین نظام ہے، جس پر اگر مسلمان عمل کریں تو آخرت کی بھلائی کے ساتھ ان کی دنیا بھی جنت نظیر بن سکتی ہے، اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے اس طرح مخاطب ہے :۔
“(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔“ (الحجرات۔ 10)
یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ اگر کوئی دشمن ان میں سے کسی سے برسر پیکار ہو تو وہ ایک دوسرے کے دست و بازو، ہمدرد و غمگسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں، اور مل کر باطل قوتوں کا مقابلہ کریں۔
ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا وہ ظالم ہو یا مظلوم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے-
كتاب المظالم والغصب - صحيح البخاري
حديث -2444
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہر انسان اور خاص کر ہر مسلمان کی مدد اور خدمت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں خیر کی چابیاں بنا ئے۔ آمین

خدمت خلق

انسانی زندگی پر خدمت خلق کے ثمرات

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

خدمت خلق کا مفہوم:
خد مت خلق“ کے لغوی معنی” مخلوق کی خدمت کرنا“ہے اور اصطلا ح اسلام میںخدمت خلق کا مفہوم یہ ہے : ”رضا ئے حق حاصل کر نے کے لیے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دینا ہے“ ۔

لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بڑی عزت واحترام پاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا حقدار بن جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا شیخ سعدی علیہ الرحمة کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے:
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
یعنی ” جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے (ایک وقت ایسا آتا ہے کہ)لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں“۔

اسلام میں ایک بہترین انسان کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے، ان میں سے ایک صفت خدمت خلق کی ہے اور ایسی صفت رکھنے والے کو اچھا انسان قرار دیا گیا ہے۔ خدمت خلق میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔

خدمت خلق اور قرآنی حکم:
خدمت خلق میں صرف مالی امدادواعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا،کسی کی کفالت کرنا، کسی کو تعلیم دینا، کوئی ہنر سکھانا،اچھا اور مفید مشورہ دینا،کسی کی علمی سرپرستی کرنا،مسجد اور مدرسہ قائم کرنا،نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں ۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
﴾ وَتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَالعُدوَانَ۔ ﴿
(سورةالمائدہ:آیت۲)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! نیکی اور پر ہیزگاری(کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون ومدد کرو اور گناہ اور برائی (کے کاموں) میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو“۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ خیروبھلائی اور اچھے کاموں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون وامداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گنا ہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے۔

ایک حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَیرُ النَّاسِ مَن یَّنفَعُ النَّاسَ۔
ترجمہ: ”لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے“۔
(جامع ترمذی)

ایک اور مقام پر فرمایا:
ترجمہ: اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔
(صحیح مسلم)

رسول کریم ﷺ نے بہترین انسان کے بارے میں فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسنِ سلوک کرتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بہترین انسان بننے کا معیار یہ مقرر کیا ہے کہ اس کے وجود دوسروں کے لئے فائدہ مند اور نفع آور ہو، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو اور ان کی خیرو بھلائی کے لئے ہر وقت کوشاں رہے۔
ع دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک سچے مسلمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ ایسے کام کرے، جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔مثلاً رفاعی ادارے بنانا، ہسپتال وشفاخانے بنانا، اسکول وکالجز بنانا، کنویں اور تالاب بنانا، دارالامان بنانا وغیرہ، یہ ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے ہیں کہ جو صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں اور اس کا اجرو ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اوراس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔

خدمت خلق اوراسوئہ نبویﷺ:
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
ترجمہ: ”رحمت کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا“۔(صحیح مسلم)

رسول اللہ ﷺ اپنے گھر کے سارے کام خود فرمایا کرتے تھے۔ پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے اور اپنے نعلین کی خود مرمت فرمالیتے۔ پالتو جانوروں کو خود کھولتے باندھتے اور انہیں چارا دیا کرتے الغرض کسی کام میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔رسول اللہ ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ ضرورت مند لوگوں کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کر دیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے کام بھی آتے تھے،۔ ایک بوڑھی یہودیہ عورت کی خدمت کرنے کا واقعہ احادیث میں موجود ہے۔اسی طرح آپ ﷺ اپنے پڑوسیوں کی دیکھ بھال اور تیمارداری بھی فرماتے تھے۔

Oایک مرتبہ حبشہ سے نجاشی بادشاہ کے کچھ مہمان مدینہ منورہ آئے۔ صحابہ کرام کی خواہش تھی کہ مہمانوں کی خدمت اور مہمان نوازی وہ کریں لیکن حضور سید عالمﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت اور خاطر مدارت کی اور فرمایا کہ ”ان لوگوں نے میرے ساتھیوں(مہاجرین حبشہ)کی خدمت کی ہے اس لئے میں خودان کی خدمت کروں گا۔“(شعب الایمان،مسند امام احمد)

Oحضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رواےت کرتے ہیں کہ اصحابِ صفہ غریب لوگ تھے۔ ایک بار حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ یہاں (اصحابِ صفہ میں)سے تیسرے آدمی کو لے جائے (یعنی ان کو کھانا کھلائے) اور جس کے گھر میں چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو لے جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو گھر لائے اور خود حضور نبی کریم ﷺ اپنے ساتھ دس آدمیوں کو لے کر گئے “۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

غلاموں کی آزادی اور رضائِے الہٰی:
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جس مسلمان کو کفار کے ہاتھ میں غلام یا قیدی کی حالت میں دیکھتے تو اُس کو خرید کر آزاد کردیتے تھے اور یہ لوگ عموماً کمزور اور ضعیف ہوتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ : ”جب تم غلاموں کو خرید کر آزاد ہی کرتے ہو تو ایسے غلا موں کو خرید کر آزاد کرو جو طاقت وَر اوربہادر ہوں تاکہ وہ کل تمہارے دشمنوں کا مقابلہ اور تمہاری حفاظت کرسکیں“-

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ: ”میرا مقصد اُن آزاد کردہ غلاموں سے کوئی فائدہ اٹھانا نہیں ہے ، بلکہ میں تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اُن کو آزاد کرتا ہوں“۔(تاریخ الخلفائ، تفسیر ضیاءالقرآن،تفسیر مظہری)

مال و دولت اگر صحیح مصرف ، صحیح مقام اور مناسب موقع پر خرچ ہو تو اُس کی قدر و منزلت غیر متنا ہی ہو جاتی ہے۔ روٹی کا ایک ٹکڑاشدتِ ِگرسنگی (شدید بھوک) کی حالت میں خوانِ نعمت ہے، لیکن آسودگی کی حالت میں ”الوانِ نعمت“ بھی بے حقیقت شئے بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے اپنی جان و مال سے رسول اللہ ﷺ کی اعانت و مدد کی تھی، ان کو قرآن مجید نے مخصوص عظمت و فضیلت کا مستحق قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ خدا وندی ہے: ترجمہ: ”تم میں سے کوئی برابر ی نہیں کرسکتا، اُن کی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (راہِ خدا میں) مال خرچ کیا اور جہاد کیا، اُن کا درجہ بہت بڑا ہے، ان سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا، اور سب کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بہ خوبی خبردارہے۔(سورة الحدید:آیت۰۱)

صدیق کیلئے خدا کا رسول کافی ہے:
Oایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال طلب کیا تو شاہراہِ عشق و محبت کے سالکین دوڑ پڑے۔کوئی اپنا چو تھائی مال لے کر آیا ، تو کوئی اپنی آدھی متاع لے کر آیا اور آسمانِ محبت کے نیر اعظم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا گھر کا گھر اٹھا لائے ۔ حضورِ اکرم ﷺ نے پوچھا:” اے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ! اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟

کاروانِ عشق کے سالارِ اعلیٰ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑا ہی پیارا اور دل رُبا جواب دیا ،جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے مرقوم ہے- عرض کیا :” یا رسول اللہ ﷺ ! اپنے گھر والوں کے لئے بس اللہ اور اس کے رسول ﷺ (کی رضا) کو چھوڑ آیا ہوں“۔اس جذبہ مقدس کو شاعر ِمشرق علامہ محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں:
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

خدمت خلق اور اسوہ فاروقی:
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض آپ کے نام سے ہی قیصر و کسریٰ ایسی عظیم الشان سلطنت کے ایوان حکومت و اقتدار میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا اور دوسری طرف خدمت خلق کا یہ عالم ہے کہ کندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کیلئے آپ پانی بھرتے ہیں۔ مجاہدین اسلام کے اہل و عیال کا بازار سے سودا سلف خرید کر لادیتے ہیں اور پھر اسی حالت میں تھک کر مسجد نبویﷺ کے کسی گوشہ میں فرشِ خاک پر لیٹ کر آرام فرماتے ہیں۔

Oایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا، آپ کیوں اتنی محنت ومشقت کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون غلام ہوسکتا ہے، جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ در حقیقت ان کا غلام بھی ہے۔(سیرالصحابہ/ کنزالعما ل )

خلق خدا کی خدمت میں صوفیاء کرام کا کردار:
حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 561 ھ / 1166 ء) فرماتے ہیں کہ: ” اگر مجھے دنیا کے تمام خزانوں کا مال اور دولت مل جائے تو میں آن کی آن میں سب مال و دولت فقیروں، مسکینوں اور حاجت مندوں میں بانٹ دوں۔اور فرمایا کہ امیروں اور دولت مندوں کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش تو ہر شخص کرتا ہے لیکن حقیقی مسرت اور سعادت انہی کو حاصل ہوتی ہے جن کو مسکینوں کی ہم نشینی کی آرزو رہتی ہے“۔(غنیة الطالبین)

حضو ر دا تا گنج بخش سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ(متوفی 465ھ/1074ئ) اپنی شہرہ آفاق تصنیف”کشف المحجوب“ میں فرماتے ہیں کہ:”ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا کو حاصل کرنے اور اسے (حاجت مندوں میں) لٹا دینے میں پوری طرح مشغول تھا،جس کی وجہ سے میں بہت قرض دار ہو گیا جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی،وہ میری طرف ہی رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ سب کی آرزو کیسے پوری کروں۔اندریں حالات ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ اے عظیم فرزند! اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کیا کرو مگر سب کے لئے اپنا دل پریشان بھی نہیں کیا کرو کیوں کہ اللہ رب العٰلمین ہی حقیقی حاجت رواہے اوروہ اپنے بندوں کے لئے خود ہی کافی ہے“۔

شہباز طریقت حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 1267ھ/ 1851ئ)نے جب تونسہ شریف میں مستقل سکونت فرمائی،تو اس وقت حالت یہ تھی کہ رہنے کے لئے کوئی مکان نہ تھا ،فقط ایک جھونپڑی تھی،جس میں آپ فقروفاقہ سے شغل فرماتے تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد جب بڑے بڑے امرا، وزرا، نواب اور جاگیر دار آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہونے لگے تو کچھ فتوح (نذرانوں) کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور دنیا کی ہر نعمت آپ کے قدموںمیں آتی گئی،لیکن ان تمام نعمتوں کے باوجود استغناء اور مخلو قِ خدا کی خدمت کا یہ جذبہ تھا کہ آپ کے قائم کردہ آستانہ عالیہ سلیمانیہ میں ہزاروں طلبہ، درویش ،مہمان اور مسافر ہر روز لنگر سے کھانا کھاتے تھے۔کھانے کے علاوہ بھی ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز موجود ہوتی تھی اور بیماری کی حالت میں ادویات بھی لنگر سے بلامعاوضہ ملتی تھیں۔

ایک مرتبہ لنگر خانے کے ایک باورچی نے عرض کی کہ:” حضور!اس مہینہ میں پانچ سو روپیہ صرف درویشوں کی دوائی پر خرچ ہوگیا ہے“۔ آپ نے فرمایا کہ.... ”اگر پانچ ہزار روپے بھی خرچ ہوجائیں تو مجھے اطلاع نہ دی جائے، درویشوں اور طالب علموں کی جان کے مقابلہ میں روپے پیسے کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔
(بحوالہ تذکرئہ خواجگانِ تونسوی،نافع السالکین)

انسانی زندگی پر خدمت خلق کے ثمرات
اللہ کے انعام یافتہ بندے:
اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہمیں اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز خرچ کرنی چاہئے کہ اس سے اﷲ کی رضا اور خیرو بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:
لَن تَنَالُوا البِرَّحَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَےیٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیمo
ترجمہ: ” جب تک تم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز خرچ نہیں کرو گے تو خیروبھلائی (تقویٰ و پرہیز گاری) تم کو ہر گز نہیں پہنچ سکتے اور تم جو کچھ بھی (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو گے، اﷲ اس کو جاننے والا ہے“۔(سورة آل عمران: آیت ۲۹)

حضور نبی کریمﷺ نے فرما یا کہ: ”اﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اﷲ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے، اﷲ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوںسے نواز تا رہے گا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محرو م کر دیں گے تو اﷲ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فرما لیتا ہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطاء فر ما دیتا ہے“۔
(مشکوٰة )

حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینے میں بڑے مال دار صحابی تھے اور انہیں اپنے اموال میں سے اپنا باغ ”بیرحائی“ بہت ہی پیارا اور محبوب تھا اور جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲﷺ! مجھے اپنے تمام اموال میں باغ بیر حا سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے اپنا وہ باغ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیا“۔(صحیح بخاری / صحیح مسلم)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کو تقویٰ وپرہیز گاری کا سبب بتا یا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاَمَّا مَن اَعطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالحُسنٰیo فَسَنُیَسِّرُہُ لِلیُسرٰیo
ترجمہ: ”پھر جس نے (راہِ خدامیں اپنا)مال دیا اور(اس سے)ڈرتا رہا اور(جس نے) اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم آسان کر دیں گے اس کے لئے آسان راہ“۔(سورة اللیل: آیت ۷۔۵)

ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے”اتقٰی“ سے پہلے ”اعطٰی“ ذکر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مال خرچ کرنا جہاں تقویٰ وپرہیزگاری کا سبب ہے اور اس سے خیر و بھلائی اور نیکیوں کے راستے کھل جاتے ہیں اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سخاوت کے بغیر تمام اعمال ادھورے رہ جاتے ہیں، گویا سخاوت تمام اعمال خیر کو درجہ کمال تک پہنچانے کا سبب بھی ہے۔

ہمدردی اور احترامِ انسانیت جس کا ہمارا دین مطالبہ کرتا ہے ، وہ ایک معاشرتی اصلاح کا کامیاب نسخہ ہے، جس کی بدولت معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک اسلامی وفلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال!
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

خدمت خلق ،وقت کی اہم ضرورت:
حضور رحمت دو عالم ﷺ نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکیدو تلقین فرمائی....مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریا درسی کی تاکید فرمائی.... یتیموں، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرما یا ہے۔

خدمت خلق وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی ہے۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے .... کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے....کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے.... کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول ﷺ بھی ہے....کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے ۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے، اپنے لئے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تو وہ ہے ،جو اﷲ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لئے جیتا ہو۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی درجات حاصل کرلیتا ہے۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم، خوش اخلاقی، غمخواری و غمگساری خیرو بھلائی، ہمدردی، عفو و درگزر، حسن سلوک، امداد و اعانت اور خدمت خلق! ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات (Qualities) ہیں کہ جن کی بہ دولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے۔

درود پاک

الله تعالی کا ارشاد
إن الله وملئکتہ یصلون علے النبی یایها الذین امنو صلو علیه وسلمو تسلیما - ط [احزاب 52]
 درود و سلام اللہ تعالیٰ کی ان با برکت نعمتوں میں سے ہے جو اپنے دامن میں بے پناہ فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی لازوال دولت ہے کہ جسے مل جائے اس کے دین و دنیا سنور جاتے ہیں۔ درود و سلام محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خزانہ، گناہوں کا کفارہ، بلندیِ درجات کا زینہ، قربِ خداوندی کا آئینہ، خیر و برکت کا سفینہ ہے۔ مجلس کی زینت، تنگ دستی کا علاج، جنت میں لے جانے والا عمل، دل کی طہارت، بلاؤں کا تریاق، روح کی مسرت، روحانی پریشانیوں کا علاج، غربت و افلاس کا حل، دوزخ سے نجات کا ذریعہ اور شفاعت کی کنجی ہے۔


Surah Ar Rehman

Qurani-soorton-ka-nazm-e-jalinewEdition- تفسیر معارف القرآن

Maa